Sahi-Bukhari:
Witr Prayer
(Chapter: The Prophet (pbuh) used to wake his family up for the Witr prayer)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
997.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، آپ نے فرمایا: نبی ﷺ تہجد کی نماز پڑھتے رہتے جبکہ میں آپ کے بستر پر لیٹی سوئی ہوتی۔ جب آپ وتر پڑھنے کا ارادہ کرتے تو مجھے بیدار کر دیتے تو میں وتر پڑھ لیتی۔
تشریح:
(1) امام بخارى ؒ نے اس عنوان کو اوقات وتر کے بعد قائم کیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ وتر کا پسندیدہ وقت رات کا آخری حصہ ہے، خواہ انسان تہجد پڑھے یا نہ پڑھے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اسے خود اپنے آپ پر اعتماد ہو کہ صبح بیدار ہو جائے یا کم از کم اسے کوئی بیدار کرنے والا ہو، بصورت دیگر اسے عشاء کے بعد نماز وتر پڑھ لینی چاہیے۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز وتر کا معاملہ عام نوافل جیسا ہے، تاہم اس کی ادائیگی کے لیے خصوصی اہتمام کا حکم ہے۔ جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے لیکن یہ فرض نہیں ہے، چنانچہ حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ وتر، فرض نماز کی طرح حتمی نہیں بلکہ سنت ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے مقرر فرمایا ہے۔ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث:453) ایک روایت میں ہے کہ وتر حق ہے، لہٰذا جس نے وتر نہ پڑھا وہ ہم میں سے نہیں۔ (مسند أحمد:357/5) حافظ ابن حجر ؒ نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔ (التلخیص الحبیر:20/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
983
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
997
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
997
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
997
تمہید کتاب
عشاء اور فجر کے درمیان بہت سا وقت خالی ہے جس میں کوئی نماز فرض نہیں، حالانکہ یہ وقت اس لحاظ سے بہت قیمتی ہے کہ اس میں فضا بہت پرسکون ہوتی ہے۔ جس قدر یکسوئی اور دل جمعی اس وقت ہوتی ہے دوسرے اوقات میں نہیں ہوتی۔ یہ وقت نماز وتر کے لیے بہت موزوں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نماز کو سرخ اونٹوں سے بہتر قرار دیا ہے اور اس کا وقت نماز عشاء کے بعد سے صبح صادق تک مقرر کیا ہے، یعنی اسے اس دوران میں کسی بھی وقت پڑھا جا سکتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس نماز کے آداب و احکام بیان کرنے کے لیے ایک مرکزی عنوان قائم کیا ہے جس میں پندرہ (15) احادیث بیان کی ہیں اور ان پر سات (7) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ تمام محدثین نے نماز تہجد اور نماز وتر کے متعلق الگ الگ عنوان قائم کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔ چونکہ ان دونوں میں ایک قسم کا رابطہ اور تعلق بھی ہے، اس لیے نماز تہجد کے ابواب میں وتر اور ابواب وتر میں تہجد کا ذکر ہوتا ہے۔ نماز وتر، نماز تہجد کا ایک حصہ ہے جو اس سے صورت، قراءت اور قنوت وغیرہ کے اعتبار سے الگ اور مستقل حیثیت رکھتی ہے۔ نماز وتر کے متعلق کئی ایک مسائل ذکر ہوں گے، مثلاً: نماز وتر واجب ہے یا سنت؟ اس کی رکعات کتنی ہیں؟ نیت شرط ہے یا نہیں؟ اس میں مخصوص سورتوں کی قراءت ہوتی ہے؟ اس کا آخری وقت کیا ہے؟ کیا اسے دوران سفر میں سواری پر پڑھا جا سکتا ہے؟ اگر نماز وتر رہ جائے تو اسے بطور قضا پڑھا جا سکتا ہے؟ اس میں قنوت کی حیثیت کیا ہے؟ محل قنوت کے متعلق کیا ہدایات ہیں؟ اس میں کون سی دعا مشروع ہے؟ اسے وصل یا فصل سے پڑھنے کا کیا مطلب ہے؟ وتر کے بعد دو رکعت پڑھنی ثابت ہیں یا نہیں؟ پھر اسے بیٹھ کر پڑھنا چاہیے یا کھڑے ہو کر، اس کے متعلق طریقۂ نبوی کیا ہے اور اس کی حقیقت کیا ہے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ اور ان کے علاوہ دیگر بیسیوں احکام بیان کیے ہیں جنہیں ہم ذکر کریں گے۔ ان شاءاللہامام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الوتر میں 15 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں ایک معلق اور باقی موصول ہیں، پھر آٹھ مکرر ہیں اور سات خالص۔ ان سب احادیث کو امام مسلم نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی تین آثار بھی متصل اسانید سے بیان کیے ہیں۔ نماز وتر کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی ادائیگی کے لیے اپنے اہل خانہ کو پچھلی رات بیدار کیا کرتے تھے، جو سو کر آخر شب بیدار نہیں ہو سکتا تھا اسے اول رات ادا کرنے کا حکم فرماتے تھے اور اگر رہ جاتے تو اس کی قضا کا حکم دیتے تھے۔ الغرض نماز وتر بہت اہمیت کی حامل ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کی اہمیت و فضیلت کو خوب خوب اجاگر کیا ہے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری پیش کردہ تمہیدی گزارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے کتاب الوتر کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی قوت استدلال اور طریقۂ استنباط سے آگاہی ہو۔ (والله الموفق وهو الهادي إلي سواء السبيل)
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، آپ نے فرمایا: نبی ﷺ تہجد کی نماز پڑھتے رہتے جبکہ میں آپ کے بستر پر لیٹی سوئی ہوتی۔ جب آپ وتر پڑھنے کا ارادہ کرتے تو مجھے بیدار کر دیتے تو میں وتر پڑھ لیتی۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخارى ؒ نے اس عنوان کو اوقات وتر کے بعد قائم کیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ وتر کا پسندیدہ وقت رات کا آخری حصہ ہے، خواہ انسان تہجد پڑھے یا نہ پڑھے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اسے خود اپنے آپ پر اعتماد ہو کہ صبح بیدار ہو جائے یا کم از کم اسے کوئی بیدار کرنے والا ہو، بصورت دیگر اسے عشاء کے بعد نماز وتر پڑھ لینی چاہیے۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز وتر کا معاملہ عام نوافل جیسا ہے، تاہم اس کی ادائیگی کے لیے خصوصی اہتمام کا حکم ہے۔ جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے لیکن یہ فرض نہیں ہے، چنانچہ حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ وتر، فرض نماز کی طرح حتمی نہیں بلکہ سنت ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے مقرر فرمایا ہے۔ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث:453) ایک روایت میں ہے کہ وتر حق ہے، لہٰذا جس نے وتر نہ پڑھا وہ ہم میں سے نہیں۔ (مسند أحمد:357/5) حافظ ابن حجر ؒ نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔ (التلخیص الحبیر:20/2)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہاکہ ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، کہاکہ مجھ سے میرے باپ نے عائشہ ؓ سے بیان کیا کہ آپ نے فرمایا نبی کریم ﷺ (تہجد کی) نماز پڑھتے رہتے اور میں آپ ﷺ کے بستر پر عرض میں لیٹی رہتی۔ جب وتر پڑھنے لگتے تو مجھے بھی جگا دیتے اور میں بھی وتر پڑھ لیتی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): The Prophet (ﷺ) used to offer his night prayer while I was sleeping across in his bed. Whenever he intended to offer the Witr prayer, he used to wake me up and I would offer the Witr prayer too.