صحیح بخاری
8. کتاب: نماز کے احکام و مسائل
48. باب: کیا دور جاہلیت کے مشرکوں کی قبروں کو کھود ڈالنا اور ان کی جگہ مسجد بنانا درست ہے؟
صحيح البخاري
8. كتاب الصلاة
48. بَابٌ: هَلْ تُنْبَشُ قُبُورُ مُشْرِكِي الجَاهِلِيَّةِ، وَيُتَّخَذُ مَكَانُهَا مَسَاجِدَ
Sahi-Bukhari
8. Prayers (Salat)
48. Chapter: Is it permissible to dig the graves of pagans of the period of Ignorance, and to use that place as a mosque?
باب: کیا دور جاہلیت کے مشرکوں کی قبروں کو کھود ڈالنا اور ان کی جگہ مسجد بنانا درست ہے؟
)
Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: Is it permissible to dig the graves of pagans of the period of Ignorance, and to use that place as a mosque?)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ خدا یہودیوں پر لعنت کرے کہ انھوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجد بنا لیا اور قبروں میں نماز مکروہ ہونے کا بیان۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے انس بن مالک ؓ کو ایک قبر کے قریب نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا کہ قبر ہے قبر! اور آپ نے ان کو نماز لوٹانے کا حکم نہیں دیا۔
428.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ (جب ہجرت کر کے) مدینہ تشریف لائے تو عمرو بن عوف نامی قبیلے میں پڑاؤ کیا جو مدینے کی بالائی جانب واقع تھا، نبی ﷺ نے ان لوگوں میں چودہ شب قیام فرمایا، پھر آپ نے بنونجار کو بلایا تو وہ تلواریں لٹکائے ہوئے آ پہنچے (حضرت انس ؓ کہتے ہیں: ) گویا میں نبی ﷺ کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ اپنی اونٹنی پر سوار ہیں، ابوبکر صدیق آپ کے ردیف اور بنونجار کے لوگ آپ کے گرد ہیں، یہاں تک کہ آپ نے حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کے گھر سامنے اپنا پالان ڈال دیا۔ آپ اس بات کو پسند کرتے تھے کہ جس جگہ نماز کا وقت ہو جائے وہیں پڑھ لیں، حتی کہ آپ بکریوں کے باڑے میں بھی نماز پڑھ لیتے تھے۔ پھر آپ نے مسجد بنانے کا حکم دیا اور بنو نجار کے لوگوں کو بلا کر فرمایا: ’’اے بنو نجار! تم اپنا یہ باغ ہمارے ہاتھ بیچ دو۔‘‘ انھوں نے عرض کیا: ایسا نہیں ہو سکتا، اللہ کی قسم! ہم تو اس کی قیمت اللہ ہی سے لیں گے۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں: میں تمہیں بتاؤں کہ اس باغ میں کیا تھا، وہاں مشرکوں کی قبریں، پرانے کھنڈرات اور کھچ کھجوروں کے درخت تھے۔ نبی اکرم ﷺ کے حکم کے مطابق مشرکین کی قبریں اکھاڑ دی گئیں، کھنڈرات ہموار کر دیے گئے اور کھجوروں کے درخت کاٹ کر ان کی لکڑیوں کو مسجد کے سامنے نصب کر دیا گیا۔ (اس وقت قبلہ بیت المقدس تھا) اور اس کی بندش پتھروں سے کی گئی، چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم رجز پڑھتے ہوئے پتھر لانے لگے۔ نبی ﷺ بھی ان کے ہمراہ تھے اور آپ بھی اس وقت یہ رجز پڑھتے تھے: ’’اے اللہ! بھلائی تو بس آخرت کی بھلائی ہے۔ اس لیے تو مہاجرین اور انصار کو معاف فر دے۔‘‘
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
425
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
428
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
428
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
428
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
تمہید باب
انبیاء علیہ السلام اور صلحائے امت کی قبروں کو سجدہ گاہ اور مسجد بنانے میں تعظیم وتکریم کا پہلو نکلتا ہے۔کفار ویہود اسی طرح گمراہی میں مبتلا ہوئے اور وجہ سے اللہ کی طرف سے ان پر لعنت کی گئی لیکن مشرکین کی قبروں کو اکھاڑ کر وہاں مسجد تعمیر کرنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ ایساکرنے میں ان کی تعظیم وتکریم کا وہم بھی پیدا نہیں ہوتا بلکہ اس طرح ان کی توہین کا پہلونکلتا ہے اور مشرکین کی اہانت جائز ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جس فرمان نبوی سے یہ مسئلہ مستنبط فرمایا ہے،اسے صحیح بخاری میں موصولاً بھی بیان کیا ہے۔( ملاحظہ ہوحدیث 168۔) بلکہ ایک روایت میں یہود کے ساتھ نصاریٰ کا بھی ذکر ہے ،نیز اس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے اپنی امت کوخبردار کرنا چاہتے تھے۔( صحیح البخاری المغازی حدیث 4441۔) اس کے علاوہ دیگر مقامات پر اس حدیث کو بیان کیاگیاہے۔( صحیح البخاری الصلاۃ حدیث 435۔436۔) اس عنوان کا دوسرا جز یہ ہے کہ قبروں میں نماز پڑھنے کی ممانعت ہے۔اس سے مراد قبر کے اوپر یا قبر کے طرف منہ کرکے نماز پڑھنا ہے یا دو قبروں کے درمیان نماز ادا کرنا ہے۔یہ تمام صورتیں منع ہیں۔اس کے متعلق ایک حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر بیٹھنے،ان پر یا ان کی منہ کرکے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔( فتح الباری 679/1۔) چونکہ یہ حدیث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی شرط کے مطابق نہ تھی،اس لیے آپ نے عنوان میں اس کی طرف اشارہ کردیا ہے۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اثر کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے شیخ ابونعیم نے اپنی تالیف "کتاب الصلاۃ" میں موصولاً بیان کیا ہے۔( صحیح المسلم الجنائز حدیث 2250(972))
کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ خدا یہودیوں پر لعنت کرے کہ انھوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجد بنا لیا اور قبروں میں نماز مکروہ ہونے کا بیان۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے انس بن مالک ؓ کو ایک قبر کے قریب نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا کہ قبر ہے قبر! اور آپ نے ان کو نماز لوٹانے کا حکم نہیں دیا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ (جب ہجرت کر کے) مدینہ تشریف لائے تو عمرو بن عوف نامی قبیلے میں پڑاؤ کیا جو مدینے کی بالائی جانب واقع تھا، نبی ﷺ نے ان لوگوں میں چودہ شب قیام فرمایا، پھر آپ نے بنونجار کو بلایا تو وہ تلواریں لٹکائے ہوئے آ پہنچے (حضرت انس ؓ کہتے ہیں: ) گویا میں نبی ﷺ کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ اپنی اونٹنی پر سوار ہیں، ابوبکر صدیق آپ کے ردیف اور بنونجار کے لوگ آپ کے گرد ہیں، یہاں تک کہ آپ نے حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کے گھر سامنے اپنا پالان ڈال دیا۔ آپ اس بات کو پسند کرتے تھے کہ جس جگہ نماز کا وقت ہو جائے وہیں پڑھ لیں، حتی کہ آپ بکریوں کے باڑے میں بھی نماز پڑھ لیتے تھے۔ پھر آپ نے مسجد بنانے کا حکم دیا اور بنو نجار کے لوگوں کو بلا کر فرمایا: ’’اے بنو نجار! تم اپنا یہ باغ ہمارے ہاتھ بیچ دو۔‘‘ انھوں نے عرض کیا: ایسا نہیں ہو سکتا، اللہ کی قسم! ہم تو اس کی قیمت اللہ ہی سے لیں گے۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں: میں تمہیں بتاؤں کہ اس باغ میں کیا تھا، وہاں مشرکوں کی قبریں، پرانے کھنڈرات اور کھچ کھجوروں کے درخت تھے۔ نبی اکرم ﷺ کے حکم کے مطابق مشرکین کی قبریں اکھاڑ دی گئیں، کھنڈرات ہموار کر دیے گئے اور کھجوروں کے درخت کاٹ کر ان کی لکڑیوں کو مسجد کے سامنے نصب کر دیا گیا۔ (اس وقت قبلہ بیت المقدس تھا) اور اس کی بندش پتھروں سے کی گئی، چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم رجز پڑھتے ہوئے پتھر لانے لگے۔ نبی ﷺ بھی ان کے ہمراہ تھے اور آپ بھی اس وقت یہ رجز پڑھتے تھے: ’’اے اللہ! بھلائی تو بس آخرت کی بھلائی ہے۔ اس لیے تو مہاجرین اور انصار کو معاف فر دے۔‘‘
فرمان نبوی ہے: "اللہ تعالیٰ یہود پر لعنت کرے انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔"(علاوہ ازیں) قبروں پر نماز پڑھنا ناپسندیدہ عمل ہے۔ حضرت عمرؓ نے (ایک دفعہ) حضرت انس ؓ کو قبر کے پاس نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا: قبر سے بچو، قبر سے دور رہو لیکن آپ نے انہیں نماز دہرانے کے متعلق نہیں فرمایا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، انھوں نے ابوالتیاح کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے انس بن مالک ؓ سے، انھوں نے کہا کہ جب نبی کریم ﷺ مدینہ تشریف لائے تو یہاں کے بلند حصہ میں بنی عمرو بن عوف کے یہاں آپ اترے اور یہاں چوبیس راتیں قیام فرمایا۔ پھر آپ نے بنونجار کو بلا بھیجا، تو وہ لوگ تلواریں لٹکائے ہوئے آئے۔ انس نے کہا، گویا میری نظروں کے سامنے نبی کریم ﷺ اپنی سواری پر تشریف فر ہیں، جبکہ ابوبکر صدیق ؓ آپ کے پیچھے بیٹھے ہوئے ہیں اور بن و نجار کے لوگ آپ کے چاروں طرف ہیں۔ یہاں تک کہ آپ ابوایوب کے گھر کے سامنے اترے اور آپ یہ پسند کرتے تھے کہ جہاں بھی نماز کا وقت آ جائے فوراً نماز ادا کر لیں۔ آپ بکریوں کے باڑوں میں بھی نماز پڑھ لیتے تھے، پھر آپ نے یہاں مسجد بنانے کے لیے حکم فرمایا۔ چنانچہ بن و نجار کے لوگوں کو آپ نے بلوا کر فرمایا کہ اے بن و نجار! تم اپنے اس باغ کی قیمت مجھ سے لے لو۔ انھوں نے جواب دیا نہیں یا رسول اللہ! اس کی قیمت ہم صرف اللہ سے مانگتے ہیں۔ انس ؓ نے بیان کیا کہ میں جیسا کہ تمہیں بتا رہا تھا یہاں مشرکین کی قبریں تھیں، اس باغ میں ایک ویران جگہ تھی اور کچھ کھجور کے درخت بھی تھے پس نبی کریم ﷺ نے مشرکین کی قبروں کو اکھڑوا دیا ویرانہ کو صاف اور برابر کرایا اور درختوں کو کٹوا کر ان کی لکڑیوں کو مسجد کے قبلہ کی جانب بچھا دیا اور پتھروں کے ذریعہ انھیں مضبوط بنا دیا۔ صحابہ پتھر اٹھاتے ہوئے رجز پڑھتے تھے اور نبی کریم ﷺ بھی ان کے ساتھ تھے اور یہ کہہ رہے تھے کہ اے اللہ! آخرت کے فائدہ کے علاوہ اور کوئی فائدہ نہیں پس انصار و مہاجرین کی مغفرت فرمانا۔
حدیث حاشیہ:
بنونجار سے آپ ﷺ کی قرابت تھی۔ آپ کے دادا عبدالمطلب کی ان لوگوں میں ننہال تھی۔ یہ لوگ اظہارخوشی اوروفاداری کے لیے تلواریں باندھ کر آپ کے استقبال کے لیے حاضر ہوئے اور خصوصی شان کے ساتھ آپ کولے گئے۔ آپ نے شروع میں حضرت ابوایوب ؓ کے گھر قیام فرمایا، کچھ دنوں کے بعد مسجدنبوی کی تعمیرشروع ہوئی، اوریہاں سے پرانی قبروں اور درختوں وغیرہ سے زمین کو صاف کیا۔ یہیں سے ترجمہ باب نکلتا ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ کھجور کے ان درختوں کی لکڑیوں سے قبلہ کی دیوار بنائی گئی تھی۔ ان کو کھڑاکرکے اینٹ اور گارے سے مضبوط کردیاگیاتھا۔ بعض کا قول ہے کہ چھت کے قبلہ کی جانب والے حصہ میں ان لکڑیوں کو استعمال کیا گیاتھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): When the Prophet (ﷺ) arrived Madinah he dismounted at 'Awali-i-Medina amongst a tribe called Banu 'Amr bin 'Auf. He stayed there for fourteen nights. Then he sent for Bani An-Najjar and they came armed with their swords. As if I am looking (just now) as the Prophet (ﷺ) was sitting over his Rahila (Mount) with Abu Bakr (RA) riding behind him and all Banu An-Najjar around him till he dismounted at the courtyard of Abu Aiyub's house. The Prophet (ﷺ) loved to pray wherever the time for the prayer was due even at sheep-folds. Later on he ordered that a mosque should be built and sent for some people of Banu-An-Najjar and said, "O Banu An-Najjar! Suggest to me the price of this (walled) piece of land of yours." They replied, "No! By Allah! We do not demand its price except from Allah." Anas (RA) added: There were graves of pagans in it and some of it was unleveled and there were some date-palm trees in it. The Prophet (ﷺ) ordered that the graves of the pagans be dug out and the unleveled land be level led and the date-palm trees be cut down . (So all that was done). They aligned these cut date-palm trees towards the Qibla of the mosque (as a wall) and they also built two stone side-walls (of the mosque). His companions brought the stones while reciting some poetic verses. The Prophet (ﷺ) was with them and he kept on saying, "There is no goodness except that of the Hereafter, O Allah! So please forgive the Ansars and the emigrants. "