قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الِاسْتِئْذَانِ (بَابُ مَنِ اتَّكَأَ بَيْنَ يَدَيْ أَصْحَابِهِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: قَالَ خَبَّابٌ:أَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺوَهُوَ مُتَوَسِّدٌ بُرْدَةً، قُلْتُ: أَلاَ تَدْعُو اللَّهَ، فَقَعَدَ

5918.01. حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ: حَدَّثَنَا بِشْرٌ، مِثْلَهُ، وَكَانَ مُتَّكِئًا فَجَلَسَ، فَقَالَ: «أَلاَ وَقَوْلُ الزُّورِ» فَمَا زَالَ يُكَرِّرُهَا حَتَّى قُلْنَا لَيْتَهُ سَكَتَ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

خباب بن ارت ؓنے کہا کہ میں نبی کریم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ایک چادر پر ٹیک لگائے ہوئے تھے میں نے عرض کیا آنحضرت ﷺ اللہ تعالیٰ سے دعا نہیں کرتے ! ( یہ سن کر ) آپ سیدھے ہوبیٹھے۔تشریح : یہ حدیث باب علامات نبوۃ میں گزر چکی ہے۔ قال الملھب یجوز للعالم والمفتی والا مام الاتقیاء فی مجلسہ بحضرۃ الناس اولم یجد ہ فی بعض اعضائہ او ارادتہ یرتفق بذ لک والایکون ذلک فی عامۃ مجلسہ۔ ( فتح ) یعنی عالم اور مفتی اور امام کے لئے لوگوں کے سامنے مجلس میں کسی جسمانی دردیا بیماری کی وجہ سے تکیہ لگا کر بیٹھنا جائز ہے محض راحت کی وجہ سے بھی مگر عام مجلسوں میں ایسا نہ ہونا چاہئے۔

5918.01.

دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺ اس وقت ٹیک لگائے ہوئے تھے پھر آپ سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا: ”ہاں اور جھوٹی بات بھی“ یہ بات آپ بار بار دہراتے رہے حتیٰ کہ ہم نے کہا: کاش! آپ خاموش ہو جائیں۔