قسم الحديث (القائل): قدسی ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ التَّوْحِيدِ وَالرَدُّ عَلَی الجَهمِيَةِ وَغَيرٌهُم (بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {قُلْ فَأْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوهَا} [آل عمران: 93])

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: «أُعْطِيَ أَهْلُ التَّوْرَاةِ التَّوْرَاةَ فَعَمِلُوا بِهَا، وَأُعْطِيَ أَهْلُ الإِنْجِيلِ الإِنْجِيلَ فَعَمِلُوا بِهِ، وَأُعْطِيتُمُ القُرْآنَ فَعَمِلْتُمْ بِهِ» وَقَالَ أَبُو رَزِينٍ: {يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلاَوَتِهِ} [البقرة: 121]: «يَتَّبِعُونَهُ وَيَعْمَلُونَ بِهِ حَقَّ عَمَلِهِ»، يُقَالُ: {يُتْلَى} [النساء: 127]: " يُقْرَأُ، حَسَنُ التِّلاَوَةِ: حَسَنُ القِرَاءَةِ لِلْقُرْآنِ "، {لاَ يَمَسُّهُ} [الواقعة: 79]: «لاَ يَجِدُ طَعْمَهُ وَنَفْعَهُ إِلَّا مَنْ آمَنَ بِالقُرْآنِ، وَلاَ يَحْمِلُهُ بِحَقِّهِ إِلَّا المُوقِنُ، لِقَوْلِهِ تَعَالَى»: {مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا، كَمَثَلِ الحِمَارِ [ص:156] يَحْمِلُ أَسْفَارًا بِئْسَ مَثَلُ القَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِ اللَّهِ، وَاللَّهُ لاَ يَهْدِي القَوْمَ الظَّالِمِينَ} [الجمعة: 5] وَسَمَّى النَّبِيُّ ﷺالإِسْلاَمَ وَالإِيمَانَ وَالصَّلاَةَ عَمَلًا، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ لِبِلاَلٍ: «أَخْبِرْنِي بِأَرْجَى عَمَلٍ عَمِلْتَهُ فِي الإِسْلاَمِ»، قَالَ: مَا عَمِلْتُ عَمَلًا أَرْجَى عِنْدِي أَنِّي لَمْ أَتَطَهَّرْ إِلَّا صَلَّيْتُ وَسُئِلَ أَيُّ العَمَلِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: «إِيمَانٌ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ، ثُمَّ الجِهَادُ، ثُمَّ حَجٌّ مَبْرُورٌ»

7095. حَدَّثَنَا عَبْدَانُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا يُونُسُ عَنْ الزُّهْرِيِّ أَخْبَرَنِي سَالِمٌ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّمَا بَقَاؤُكُمْ فِيمَنْ سَلَفَ مِنْ الْأُمَمِ كَمَا بَيْنَ صَلَاةِ الْعَصْرِ إِلَى غُرُوبِ الشَّمْسِ أُوتِيَ أَهْلُ التَّوْرَاةِ التَّوْرَاةَ فَعَمِلُوا بِهَا حَتَّى انْتَصَفَ النَّهَارُ ثُمَّ عَجَزُوا فَأُعْطُوا قِيرَاطًا قِيرَاطًا ثُمَّ أُوتِيَ أَهْلُ الْإِنْجِيلِ الْإِنْجِيلَ فَعَمِلُوا بِهِ حَتَّى صُلِّيَتْ الْعَصْرُ ثُمَّ عَجَزُوا فَأُعْطُوا قِيرَاطًا قِيرَاطًا ثُمَّ أُوتِيتُمْ الْقُرْآنَ فَعَمِلْتُمْ بِهِ حَتَّى غَرَبَتْ الشَّمْسُ فَأُعْطِيتُمْ قِيرَاطَيْنِ قِيرَاطَيْنِ فَقَالَ أَهْلُ الْكِتَابِ هَؤُلَاءِ أَقَلُّ مِنَّا عَمَلًا وَأَكْثَرُ أَجْرًا قَالَ اللَّهُ هَلْ ظَلَمْتُكُمْ مِنْ حَقِّكُمْ شَيْئًا قَالُوا لَا قَالَ فَهُوَ فَضْلِي أُوتِيهِ مَنْ أَشَاءُ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

 ‏‏‏‏ اور نبی کریم ﷺ کا یوں فرمانا کہ توراۃ والے توراۃ دئیے گئے انہوں نے اس پر عمل کیا۔ انجیل والے انجیل دئیے گئے انہوں نے اس پر عمل کیا۔ تم قرآن دئیے گئے تم نے اس پر عمل کیا۔ اور ابورزین نے کہا «يتلونه‏» کا مطلب یہ ہے کہ اس کی پیروی کرتے ہیں۔ اس پر جیسا عمل کرنا چاہئیے ویسا عمل کرتے ہیں تو تلاوت کرنا ایک عمل ٹھہرا۔ عرب کہتے ہیں «يتلى» یعنی پڑھا جاتا ہے اور کہتے ہیں فلاں شخص کی تلاوت یا قرآت اچھی ہے اور قرآن میں (سورۃ الواقعہ میں) ہے «لا يمسه‏» یعنی قرآن کا مزہ وہی پائیں گے اس کا فائدہ وہی اٹھائیں گے جو کفر سے پاک یعنی قرآن پر ایمان لاتے ہیں اور قرآن کو اس کے حق کے ساتھ وہی اٹھائے گا جس کو آخرت پر یقین ہو گا کیونکہ (سورۃ الجمعہ میں) فرمایا ان لوگوں کی مثال جن سے توراۃ اٹھائی گئی پھر انہوں نے اس کو نہیں اٹھایا، (اس پر عمل نہیں کیا) ایسی ہے جیسے گدھے کی مثال جس پر کتابیں لدی ہوں۔ جن لوگوں نے اللہ کی باتوں کو جھٹلایا ان کی ایسی ہی بری مثال ہے اور اللہ ایسے شریر لوگوں کو راہ پر نہیں لگاتا۔ اور نبی کریم ﷺ نے اسلام اور ایمان دونوں کو مکمل فرمایا۔ ابوہریرہ ؓ نے کہا نبی کریم نے بلال ؓ سے فرمایا کہ تم مجھ سے اپنا وہ زیادہ امید کا عمل بیان کرو جس کو تم نے اسلام کے زمانہ میں کیا ہو۔ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! میں نے اسلام کے زمانہ میں اس سے زیادہ امید کا کوئی کام نہیں کیا ہے کہ میں نے جب وضو کیا تو اس کے بعد تحیۃ الوضو کی دو رکعت نماز پڑھی اور نبی کریم ﷺ سے پوچھا گیا: کون سا عمل افضل ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا پھر اللہ کی راہ میں جہاد کرنا پھر وہ حج جس کے بعد گناہ نہ ہو۔

7095.

سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: گزشتہ امتوں کے مقابلے میں تمہاری بقا صرف اس قدر ہے جتنا عصر اور مغرب کے درمیان کا وقت۔ اہل تورات کو تورات دی گئی تو انہوں نے اس پر عمل کیا یہاں تک کہ دن آدھا ہوگیا اور وہ عاجز ہوگئے۔ انہیں اجرت کے طور پر ایک ایک قیراط دیا گیا۔ پھر اہل انجیل کو انجیل دی گئی تو انہوں نے اس پر عمل کیا یہاں تک کہ عصر کی نماز کا وقت ہوگیا۔ پھر وہ عاجز ہوگئے تو انہیں بھی ایک ایک قیراط دیا گیا۔ پھر تمہیں قرآن دیا گیا تو تم نے اس پر عمل کیا تاآنکہ مغرب کا وقت ہوگیا۔ تمہیں دو قیراط اجرت دی گئی۔ اہل کتاب نے کہا: ان لوگوں نے تھوڑا وقت کام کیا ہے لیکن انہیں اجرت زیادہ دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”میں نے تمہارے حق سے کچھ کم تو نہیں کیا؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یہ میرا افضل ہے میں جسے چاہوں دوں۔“