تشریح:
(1) راوی کا نام سالم، سبلان ان کا لقب اور ابو عبداللہ ان کی کنیت ہے۔ یہ غلام تھے، بعد میں آزاد ہوئے۔
(2) (مکاتب) اس غلام کو کہا جاتا ہے جو اپنا معاوضہ ادا کرنے کا معاہدہ اپنے مالک سے کرلے۔ ایسا غلام جب تک معاوضہ ادا نہ کر دے، وہ اس مالک کا غلام ہی رہتا ہے۔ چونکہ غلاموں سے پردہ ضروری نہیں، اس لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا سالم سے بے حجاب بات کرنا قابل اعتراض نہیں (اسی طرح لونڈیوں پر بھی پردہ واجب نہیں) جونہی سالم آزاد ہوا، آپ نے ان سے فوراً پردہ کرلیا۔
(3) مذکورہ روایت قابل حجت ہے اگرچہ عمومی روایات میں مسح کا یہ طریقہ منقول نہیں، لیکن چونکہ یہ طریقہ بھی مستند ذریعے سے ثابت ہے، اس لیے انسان کبھی کبھار اس سنت مسح کو بھی اختیار کرسکتا ہے۔
(3) امام نسائی رحمہ اللہ کی تبویب سے یوں لگتا ہے کہ وہ اس اندازِ مسح کو صرف عورت کےساتھ خاص سمجھتے ہیں لیکن سائل کے سوال اور اس کے جواب میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا وضو کرکے دکھانا اور پھر اس مسح کے طریقے کی نسبت نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ طریقہ مرد و عورت سب کے لیے یکساں قابل عمل ہے۔ عورت کی تخصیص مرجوح ہے۔ واللہ أعلم۔