تشریح:
(1) موزوں پر مسح حضر اور سفر دونوں حالتوں میں جائز ہے۔ بعض لوگ اسے سفر کے ساتھ خاص کرتے ہیں لیکن اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سفر و حضر دونوں حالتوں میں مسح کرنے کا ثبوت ملتا ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو (ذخیرۃ العقبی، شرح سنن النسائي: ۹۵-۸۶/۳)
(2) چونکہ مسافر کو سفر میں کافی مصروفیت ہوتی ہے، اس لیے اس کی مجبوری کا لحاظ رکھتے ہوئے اس کے لیے مدت مسح زیادہ رکھی گئی۔ عام حالات میں مسافر کے لیے تین دن اور تین راتیں مسح کرنے کی اجازت ہے۔ اگر سفری مشقت زیادہ ہو، قافلے سے پیچھے رہ جانے کا اندیشہ ہو یا اگر انھیں روکا جائے تو اس وجہ سے وہ اذیت محسوس کریں، یا کوئی ایسی صورت لاحق ہو جائے کہ واقعتاً جرابوں یا موزوں کو اتارنے اور پھر وضو کرنے میں وقت یقینی ہو تو عمومی معینہ مدت سے زیادہ مدت تک بھی مسح کیا جا سکتا ہے، یہ حالتِ مجبوری میں ایک رخصت ہے۔ اس رخصت کی دلیل سنن ابن ماجہ کی صحیح حدیث ہے۔ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ وہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس مصر سے آئے، انھوں نے پوچھا: تو نے کب سے یہ موزے نہیں اتارے، انھوں نے جواب دیا: جمعے سے جمعے تک، حضرت عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: تو نے سنت طریقے کو پا لیا ہے۔ دیکھیے: (سنن ابن ماجه، الطھارة، حدیث: ۵۵۸) بعض روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ فتح دمشق کی خوشخبری لے کر آئے تھے۔ رہا یہ اعتراض کہ مسافر کے لیے تو تین دن رات مسح کرنے کی رخصت ہے جبکہ اس حدیث سے تو ایک ہفتے تک مسح کا جواز بلکہ ضروریات کے تحت مزید ایام کی رخصت ہے، البتہ مذکورہ عذر کی صورت میں زیادہ دیر تک بھی مسح کیا جا سکتا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (تیسیر الفقه الجامع للاختیارات الفقھية: ۱۵۹/۱، والصحیحة للألباني: ۲۳۹/۶)
(4) مدت مسح وضو ٹوٹنے کے بعد پہلے مسح سے شمار ہوگی جیسے کہ مسح کی احادیث کے عموم سے ظاہر ہوتا ہے۔
(5) مسح وضو میں ہوگا نہ کہ غسل میں۔ اگر غسل فرض ہو جائے تو موزے اتارنے ہوں گے۔
الحکم التفصیلی:
قلت : فجعله من مند ابن مسعود وهو شاذ وفي الطريق الى المنهال الصعق بن حزن وهو صدوق يهم كما قال الحافظ . وللحديث طريق آخر من رواية أبي روق عطية بن الحارث قال : ثنا أبو الغريف عبد الله بن خليفة عن صفوان بن عسال دمون الاستثناء أيضا . أخرجه أحمد والطحاوي والبيهقي وسنده ضعيف أبو الغريف هذا قال أبو حاتم " ليس بالمشهور قد نكلوا فيه وهو شيخ من نظراء أصبغ بن نباتة " كما في " الجرح " ( ج 2 / 2 / 313 ) وأصبغ عنده لين الحديث
( تنبيه ) : في حديث عاصم عند جميع من ذكرناهم من المخرجين - حاشا المعجم الصغير - زيادة في آخره . بلفظ : " ولكن من غائط وبول ونوم " فلا أدري لماذا لم يذكرها المصنف ثم رأيته ذكرها - لوحدها بعد حديث . نعم لم تقع هذه الزيادة حق في رواية معمر عن عاصم عند أحمد ولكنها ثابتة في روايته عند الدارقطني كما هي ثابتة عند كل من رواه . عن عاصم . ( ننبيه ثان ) : إدعى ابن تيمية أن لفظة " ونوم " مدرجة في هذا الحديث ( 1 ) وهي دعوى مردودة فهي ثابتة عند الجميع ثبوت ما قبلها ولم أجد من سبقه إلى هذه الدعوى عل خطأها . ومن فوائد هذه الزيادة انها تدل على أن النوم مطلقا ناقض للوضوء كالغائط والبول وهو مذهب جماعة من العلماء منهم الحنابلة كما ذكره المؤلف ( ص 34 ) وهو الصواب
( 1 ) ذكر ذلك في بعض رسائله المنسورة في " شذرات البلاتين " ( وهو مخترعات الشيخ حامد رحمه الله )