تشریح:
(1) ”حکم دیا گیا ہے۔“ صحابہ کا آپ سے درود کے بارے میں اس طرح سوال کرنا اور سوال و جواب میں سلام کا حوالہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ سوال نماز کے بارے میں تھا کیونکہ سلام تو نماز ہی میں واجب ہے۔
(2) آل سے مراد آپ کے مسلم قریبی رشتہ دار یا متبعین، یعنی صحابہ یا کل امت ہے۔ یہ لفظ ان تینوں معانی میں استعمال ہوا ہے۔
(3) درود میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا حوالہ یا تو اس لیے ہے کہ وہ آپ کے جد امجد ہیں یا اس کے لیے کہ تمام آسمانی مذاہب (اسلام، یہودیت، عیسائیت) انھیں اپنا امام مانتے ہیں۔
(4) آپ نے جو بھی درود سکھایا اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا حوالہ ضرور ہے، اس لیے جمیع امت کا اتفاق ہے کہ ہر قسم کی نماز میں درود ابراہیمی ہی پڑھا جائے گا۔ نماز کے علاوہ بھی ابراہیمی درود ہی بہتر ہے اگرچہ کوئی اور درود بھی، جو حدیث سے ثابت ہو، پڑھا جا سکتا ہے۔
(5) تمام جہانوں سے مراد دنیا و آخرت دونوں ہیں۔
(6) اس حدیث مبارکہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عجز و انکسار اور خصائل حمیدہ کا پتہ چلتا ہے، آپ اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا احترام کرتے تھے اور ان سے اپنائیت کا اظہار کرتے ہوئے ان کے پاس تشریف لے جاتے تھے۔
(7) صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو اگر کوئی شرعی مسئلہ درپیش ہوتا تو وہ اپنی طرف سے شریعت سازی نہیں کرتے تھے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرتے تھے، اس لیے ہمیں بھی چاہیے کہ اگر ہمیں کوئی مسئلہ درپیش ہو تو قرآن و سنت سے رہنمائی لیں، اپنے اجتہادات اور قیاس آرائیوں کی طرف سبقت نہ کریں۔
(8) نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اگر کوئی سائل سوال کرتا اور اس کا جواب ابھی تک اللہ نے آپ کو بتایا نہ ہوتا تو آپ وحی کا انتظار کرتے تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَىo إِنْ هُوَ إِلا وَحْيٌ يُوحَى﴾ (النجم: ۳:۵۳، ۴) ”اور وہ (اپنی) خواہش سے نہیں بولتا۔ وہ وحی ہی تو ہے جو اس کی طرف بھیجی جاتی ہے۔“
(9) اس حدیث مبارکہ سے دوسرے انبیاء پر صلاۃ (درود) پڑھنا ثابت ہوتا ہے۔