تشریح:
(1) قبلے سے رخ موڑنا شاید اس لیے ہے کہ دور سے دیکھنے والے کو بھی نماز کے ختم ہونے کا علم ہو جائے۔ ویسے بھی امام کا مقتدیوں کی طرف بیٹھنا نماز کی حد تک تو مجبوری تھی، نماز کے بعد مناسب ہے کہ وہ لوگوں کی طرف منہ کرکے بیٹھے جیسے سردار لوگوں کے ساتھ بیٹھتا ہے، اس لیے امام کو اپنا رخ قبلے کی طرف سے بدل لینا چاہیے۔ پھر چاہے تو بالکل مقتدیوں کی طرف منہ کرکے بیٹھے، خصوصاًً اگر کوئی خطاب کرنا ہو اور چاہے تو دائیں یا بائیں منہ کرکے بیٹھ جائے۔ دائیں کو ترجیح دینا مستحسن ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عموماً دائیں جانب کو ترجیح دیتے تھے۔
(2) اس حدیث کے معنیٰ یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ جب آپ نماز پڑھ چکے تو اٹھ کر گھر چلے گئے مگر نماز کے بعد دیر تک ذکر اذکار آپ کا معمول تھا، خصوصاً صبح کی نماز کے بعد۔ احادیث میں اس کی فضیلت بھی وارد ہے۔ ہوسکتا ہے کوئی کام ہو، اس لیے فوراً چلے گئے لیکن یہ معنیٰ مراد لینے بعید ہیں کیونکہ یہ حجۃ الوداع کے موقع پر مسجد خیف کی بات ہے جیسا کہ حدیث: ۸۵۹ میں گزر چکا ہے۔ اور مسند احمد کے الفاظ ہیں: [ثُم انحرَفَ جالسًا] ”پھر آپ بیٹھے بیٹھے مڑے۔“ (مسند أحمد: ۴/۱۶۱) لہٰذا پہلی بات ہی زیادہ درست معلوم ہوتی ہے۔ تاہم ضرورت کے پیش نظر امام فوراً اٹھ کر بھی جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح، وقال الترمذي: " حديث حسن صحيح ") .
إسناده: حدثنا مسدد: نا يحيى عن سفيان: ثتي يعلى بن عطاء عن جابر بن
يزيد بن الأسود عن أبيه.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله ثقات رجال "الصحيح "؛ غير جابر بن يزيد
الأسود؛ وهو ثقة كما تقدم.
والحديث أخرجه البيهقي (2/182) من طريق المصنف.
وأخرجه النسائي (1/196) من طريق أخرى عن يحيى.
وأخرجه الترمذي (1/424- 425) ، والنسائي (1/137) ، والد ارقظني (ص
158) ، وابن أبي شيبة (1/352) ، وأحمد (4/165) من طريق هشيم: أخبرنا
يعلى بن عطاء؛ بلفظ: قال:
شهدت مع النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حجته، فصليت معه صلاة الصبح في مسجد الخَيْفِ،
فلما قضى صلاته وانحرف؛ إذا هو برجلين... الحديث؛ وقد مضى في الكتاب
(رقم 590) ، دون هذا القدر الذي أورده المصنف هنا.
ثم أخرجه أحمد من طرق أخرى عن يعلى بن عطاء... نحوه.
ورواية هشيم هذه تدل على أن قوله في رواية الكتاب: كان... ليس على بابه؛
فإنها تدل صراحة على أن ذلك إنما كان منه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مرة واحدة في صلاة الصبح في
مسجد الخيف! لكن هذا لا ينفي أن يكون ذلك من هديه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؛ إذا قام الدليل
عليه من رواية غير يزيد بن الأسود، كما في حديث البراء الأني بعده، وهو: