تشریح:
(1) جمعے میں کثیر تعداد ہوتی ہے۔ اگر معمولی بات کرنے کی بھی اجازت ہوتی تب بھی شور و شغب پڑ جاتا، اس لیے مطلقاً کلام سے روک دیا گیا، حتیٰ کہ زبان سے کسی کو چپ بھی نہ کرائے کیونکہ بسا اوقات چپ کرانے والوں کا شور باتیں کرنے والوں سے بڑھ جاتا ہے اور ”یک نہ شد دو شد“ والا معاملہ بن جاتا ہے۔ ہاں بامر مجبوری اشارے سے چپ کرا سکتا ہے۔
(2) احناف اس سے استدلال کرتے ہیں کہ اگر ”چپ رہ“ نہیں کہہ سکتا تو دورانِ خطبہ نماز کیسے پڑھ سکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ لغو کام ہے۔ کیا نماز بھی لغو ہے؟ (نعوذ باللہ) پھر نماز تو آہستہ پڑھی جاتی ہے، شور نہیں ہوتا۔ بات کرنے سے شور ہوتا ہے، نیز نماز کی روایات صریح حکم والی ہیں۔ کیا ان صریح روایات کو ایسے عمومی دلائل سے رد کیا جا سکتا ہے؟ (3) ”لغو بات کی“ لہٰذا اس کا اجر ضائع ہو گیا، یعنی فرض تو ادا ہوگیا، البتہ جمعے کی فضیلت حاصل نہ ہوئی۔ گویا ظہر پڑھ لی۔ یہ مطلب نہیں کہ اس کا فرض بھی ادا نہ ہوا کیونکہ خطبہ عین نماز نہیں۔ واللہ أعلم۔