تشریح:
(1) قحط سالی کی بنا پر جانوروں کو چارہ نہ ملنے سے ان کی ہلاکت واضح ہے۔ راستے منقطع ہونے کی وجہ یا تو گھاس وغیرہ کا ختم ہونا ہے کہ جب گھاس نہ ہوگی تو جانوروں کا گزارا کیسے ہوگا؟ اور سفر جانوروں کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ یا جب کچھ ہے ہی نہیں تو سفر کس لیے کرنا ہے؟ تجارتی منڈیاں بھی تبھی چلیں گی جب کوئی فصل ہو، قحط سالی کی وجہ سے فصلیں نہ رہیں تو تجارت بھی ختم۔
(2) بارش کے بعد بھی جانوروں کی ہلاکت یا تو سردی زیادہ ہونے کی وجہ سے تھی یا اس لیے کہ بارش ختم ہو تو کچھ اگے۔ ہلاکت سے مراد انتہائی کمزوری بھی ہوسکتی ہے، یعنی ہلاکت کے قریب ہوگئے۔ راستے منقطع ہونا تو واضح ہے کہ پانی کی کثرت کی بنا پر چلنا ممکن نہیں رہا، نیز سابقہ وجوہات بھی قائم ہیں۔ بارش رکے تو وہ وجوہات ختم ہوں۔
(3) ”جس طرح کپڑا پھٹ جاتا ہے“ یعنی مدینہ منورہ کے اوپر سے بادل ہٹ گئے اور اردگرد بادل ہی بادل تھے تو دیکھنے سے ایسے لگتا تھا جیسے درمیان سے کپڑا پھٹ گیا ہے اور جگہ خالی ہوگئی ہے۔ بادل کو کپڑے سے تشبیہ دی گئی ہے۔
(4) دونوں دعاؤں کی فوری قبولیت علامات نبوت سے ہے۔۔۔ صلی اللہ علیه وسلم۔
(5) باب کا مقصد یہ ہے کہ بارش کی دعا اس وقت کی جائے جب بارش نہ ہونے سے نقصان ہو، ورنہ ہر وقت تو بارش نہیں ہوتی اور نہ ہر وقت دعا ہی کی جاتی ہے۔
(6) قحط سالی کے موقع پر لوگ امام سے بارش کی دعا کے لیے درخواست کرسکتے ہیں۔
(7) ایک آدمی پوری جماعت کی طرف سے نمائندگی کرسکتا ہے۔
(8) نیک بزرگوں سے دعا کروانی چاہیے۔
(9) دعا میں تمام لوگوں کے احوال کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلق بارش رکنے کی دعا نہیں کی بلکہ صرف مدینے میں بارش رکنے کی دعا کی۔ اس غرض سے کہ ممکن ہے دوسرے علاقوں میں ابھی بارش کی ضرورت ہو۔
(10) کسی مصیبت اور آزمائش کے خاتمے کی دعا کرنا توکل کے منافی نہیں ہے۔
(11) اس حدیث سے نمازاستسقاء کی نفی نہیں ہوتی بلکہ وہ صحیح احادیث سے ثابت ہے، لہٰذا اس حدیث میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے لیے اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ نماز استسقاء غیرمشروع ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم، وكذا قال الحاكم، ووافقه
الذهبي، وصححه ابن خزيمة وابن حمان، وقال الترمذي: " حديث حسن ") .
إسناده: حدثنا محمد بن العلاء أن زيد بن حُبَابٍ حدثهم: ثنا حسين بن
واقد: حدثني عبد الله بن بريدة عن أبيه.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله ثقات كلهم على شرط مسلم ولم يخرجه.
والحديث أخرجه الإمام أحمد (5/354) ، وابن أبي شيبة (12/99/22372)
قالا: ثنا زيد بن حباب... به؛ وصرح بسماع عبد الله من أبيه.
وأخرجه ابن ماجه (2/377) ، وابن خزيمة (1801) ، والحاكم (4/189) من
طريقين آخرين عن ابن الحباب... به، وقال:
" صحيح على شرط الشيخين "! ووافقه الذهبي!
وفيه نظر؛ فإن الحسين بن واقد لم يخرج له البخاري إلا تعليقاً.
وزيد بن الحباب لم يخرج له أصلاً! ولكنه قد توبع؛ فأخرجه النسائي
(1/209 و 235) ، والترمذي (4/340- تحفة) ، وابن خزيمة أيضا (1802) ، وابن
جرير (28/81) ، والحاكم أيضا (1/287) ، والبيهقي (3/218) من طرق أخرى
عن الحسين بن واقد... به. وقال الحاكم:
" صحيح على شرط مسلم "؛ فأصاب هنا؛ ووافقه الذهبي.
وصرح ابن حبان بسماع عبد الله أيضا.