تشریح:
(1) ”چہرۂ مبارک کے برابر“ یہ مسجد نبوی کے اندر کی بات ہے اور حضرت انس رضی اللہ عنہ ہی کی روایت: (۱۵۱۴) شہر سے باہر کے بارے میں تھی، لہٰذا کوئی تعارض نہیں۔ عام دعا میں ہاتھ سینے یا چہرے کے برابر ہی اٹھائے جاتے ہیں۔
(2) امام صاحب نے ہاتھ اٹھانے کی کیفیت کا باب نہیں باندھا۔ صحیح مسلم میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ دعائے استسقاء میں آپ کے ہاتھوں کی پشت آسمان کی طرف تھی اور ہتھیلیاں زمین کے رخ تھیں۔ اس سے علماء نے استدلال کیا ہے کہ اگر کسی واقع مصیبت کے رفع کی دعا ہو تو ہاتھ الٹے ہوں، یعنی ان کی پشت آسمان کی طرف ہو اور اگر کسی چیز کا سوال ہو تو ہتھیلیاں آسمان کی طرف ہوں۔ شاید دعائے استسقاء میں ہاتھوں کو الٹنا، چادر الٹانے کی طرح بطورِ فال ہو کہ اللہ تعالیٰ ہماری حالت بدل دے۔
(3) آپ کی دونوں دعاؤں کی فوری قبولیت علامات نبوت میں سے ہے۔