تشریح:
(1) نماز خوف کی مشروعیت قرآن مجید سے ثابت ہے بلکہ یہ واحد نماز ہے جس کا طریقہ بھی اجمالی طور پر قرآن کریم میں بتلایا گیا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مقامات پر یہ نماز پڑھی۔ مگر حنفیہ میں سے امام ابویوسف رحمہ اللہ اور شوافع میں سے امام مزنی رحمہ اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اسے قرآن یا احادیث میں مذکور طریقوں سے پڑھنا جائز نہیں سمجھتے۔ ان کا خیال ہے کہ نماز خوف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھی کیونکہ ہر شخص آپ کے پیچھے نماز پڑھنے کا خواہاں تھا۔ جنگ اور خوف کی وجہ سے مجبوری تھی کہ سب اکٹھے نہیں پڑھ سکتے تھے۔ دو دفعہ ایک ہی نماز پڑھنا یا پڑھانا درست نہیں لہٰذا مجبوراً یہ طریقہ اختیار کیا گیا تاکہ ہر شخص آپ کے پیچھے نماز پڑھ سکے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شخص ایسا نہیں جس کے پیچھے نماز پڑھنے کی خصوصی فضیلت ہو یا سب اس کے پیچھے نماز پڑھنے کی خواہش رکھیں۔ قرآن مجید میں بھی نمازخوف کے بیان میں خصوصاً آپ سے خطاب کیا گیا ہے: (واذا کنت فیہم فاقمت لہم الصلوۃ) (النساء۴:۱۰۲) ”جب آپ ان میں ہوں تو آپ انھیں نماز پڑھائیں“ لہٰذا اب اگر خوف کا مسئلہ ہو تو دو گروہ کرلیے جائیں اورہر گروہ کو ان کے الگ الگ امام نماز پڑھائیں۔ مذکورہ بات عقل کو بہت جچتی ہے مگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا طرزعمل اس کے مطابق نہیں۔ بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی نماز خوف مخصوص طریقوں سے پڑھی ہے، لہٰذا جمہور اہل علم کے نزدیک یہ نماز اب بھی مشروع ہے۔ اور یہی بات صحیح ہے۔ واللہ اعلم۔
(2) احادیث میں نماز خوف کے چھ سات طریقے منقول ہیں کیونکہ خوف کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں، لہٰذا ہر جگہ ایک ہی طریقے سے نماز پڑھنا ممکن نہیں جیسا کہ آئندہ احادیث سے وضاحت ہوگی۔ یہ سب احادیث صحیح ہیں۔ موقع محل کے مطابق ان میں سے کوئی سا بھی طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔ جن حضرات نے ایک طریقہ معین کرنے کی کوشش کی ہے، انھوں نے غیرضروری تکلف برتا ہے۔ حسب حالات تمام احادیث پر عمل کیا جاسکتا ہے۔ واللہ اعلم۔
(3) اوپر مذکورہ دو احادیث میں ایک ہی واقعے کا بیان ہے۔ نمازخوف کی مخصوص مختلف صورتوں میں سے یہ بھی ایک صورت ہے، یعنی شدید خوف میں ایک رکعت بھی پڑھی جاسکتی ہے۔ مزید دیکھیے، حدیث:۱۵۳۳۔