تشریح:
(1) مقصود یہ ہے کہ آئندہ روایت میں یہی الفاظ حمید کی طرف منسوب ہیں۔ حمید تابعی ہیں اور تابعی کے قول و فعل کو مقطوع کہا جاتا ہے، گویا یہاں موقوف سے مقطوع مراد ہے۔
(2) ہمارے نسخے کے مطابق عبارت کا بظاہر وہی مفہوم ہے جو ذکر ہوا۔ (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: (۱۷۸/۱۸) کے نسخے میں حمید بن عبدالرحمٰن حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں، اگر یہ اضافہ درست ہے تو پھر موقوف اپنے اصطلاحی معنیٰ میں مستعمل ہے۔ واللہ أعلم۔
(3) ضروری نہیں نماز ہی مراد ہو بلکہ قرآن مجید یا ذکر و درود بھی مراد ہو سکتا ہے اور اس کا حکم بھی یہی ہے۔
(4) اس روایت میں زوال شمس کا لفظ کسی راوی کی غلطی ہے، طوع شمس چاہیے جیسے پہلی روایات میں ہے۔
(5) باب کے تحت ان تین روایات میں فرق یہ ہے کہ پہلی اور دوسری روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہے اور آخری حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف اور آئندہ روایت صحابی کی بجائے تابعی (حمید) کی طرف منسوب ہے۔ پہلی کو مرفوع دوسری کو موقوف اور تیسری کو مقطوع کہتے ہیں۔