تشریح:
(1) اگر بچہ بلوغت سے پہلے بے گناہ ہوتا ہے مگر جنازہ مسلم میت کی سنت ہے، نیز بخشش اور دعائے رحمت بچے کے والدین کے لیے ہوگی، اس لیے بچے کا جنازہ بھی پڑھا جائے گا۔
(2) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت یا جہنم میں جانے والوں کا قطعی علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، کسی فرد واحد کو قطعیت کے ساتھ جنتی یا جہنمی نہیں کہا جا سکتا (جب تک وحی نہ آئے) خواہ وہ نا بالغ بچہ ہی ہو، البتہ عمومی حکم یہی ہے کہ مسلمانوں کے بچے (بلوغت سے پہلے فوت ہونے والے) جنت میں جائیں گے۔ ایک دوسری تطبیق اس طرح ہوسکتی ہے کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب بچوں کے بارے میں کوئی خصوصی حکم نازل نہیں ہوا تھا بعد میں بتا دیا گیا کہ مسلمانوں کے بچے جنت میں جائیں گے۔ کفار کے بچوں کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض اہل علم کا موقف یہ ہے کہ جب کفار کے بچے سن تمیز سے پہلے فوت ہو جائیں اور ان کے والد کافر ہوں تو دنیا میں ان کا حکم کافروں کا ہوگا کہ نہ انھیں غسل دیا جائے گا نہ کفن دیا جائے گا نہ جنازہ پڑھا جائے گا اور نہ انھیں مسلمانوں کے ساتھ دفن کیا جائے گا کیونکہ وہ اپنے والدین کے ساتھ کافر ہی ہیں باقی رہا آخرت میں ان کا حال تو یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ اگر وہ بڑے ہوتے تو دنیا میں کس طرح کے عمل کرتے؟ صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب مشرکوں کے بچوں کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرنے والے تھے؟“ (صحیح البخاري، القدر، حدیث: ۶۵۹۷) نیز بعض اہل علم کا ایک قول یہ بھی ہے کہ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا علم قیامت کے دن ظاہر ہوگا اور ان کا بھی اہل فترت کی طرح امتحان ہوگا اگر انھوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی فرمانبرداری کی تو جنت میں داخل ہوں گے اور اگر نافرمانی کی تو جہنم رسید ہوں گے۔ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ اہل فترت کا قیامت کے دن امتحان ہوگا۔ اہل فترت سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے پاس انبیاء کی دعوت نہیں پہنچی ہوگی۔ اسی طرح جو لوگ ان کے حکم میں ہوں گے، مثلاً: کفار اور مشرکین کے بچے، ان کا بھی امتحان ہوگا کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولا﴾ (بني اسرائیل: ۱۵:۱۷) ”اہل فترت کے بارے میں سب سے زیادہ صحیح قول یہی ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ، امام ابن قیم، فضیلۃ الشیخ ابن باز اور فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہم اللہ نے اسی کو اختیار کیا ہے جبکہ بعض اہل علم کے بقول وہ جنت میں جائیں گے کیونکہ وہ بے گناہ ہیں۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (فتاویٰ ابن تیمیه: ۳۷۲/۲۴، ۲۷۳، و ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: ۱۹۳/۱۹- ۱۹۶)
(3) جنت اور جہنم کا وجود ہے۔