تشریح:
حضرت عائشہ ؓ کی مندرجہ بالا تاویل پر بحث حدیث نمبر 2076 میں گزر چکی ہے۔ اور اس مسئلے کی مختصر تحقیق بھی۔ با قی رہا حضرت عائشہ ؓ کا مذکورہ آیت سے استدلال تو جواب یہ ہے کہ نفی آپ کے سنانے کی ہے، نہ کہ اللہ تعالیٰ کے سنانے کی ﴿إِنَّ اللَّهَ يُسْمِعُ مَنْ يَشَاءُ﴾ اور آپ کے الفاظ ان کو اللہ تعالیٰ نے سنائے تھے، نیز رسول اللہﷺ نے ان کے سننے کی جو تصریح فرمائی ہے تو وہ سماع وقتی تھا جیسا کہ احادیث میں ”الا ن“ کی قید آتی ہے، یقینا یہ رسو ل اللہ ﷺ کا معجزہ ہی ہے۔ بہر حال سماع مو تیٰ کا مسئلہ متکلم فیہ ہے۔ اہل علم کا ایک گرہ سماع موتیٰ کا قائل ہے، دوسرا قائل نہیں۔ کچھ محققین معتدل ہیں جیسا کہ حدیث نمبر 2076 کے فوائد میں گزرا لیکن یاد رہے، سماع موتیٰ کے قائل ہونے کایہ مطلب ہر گز نہیں کہ انھیں عبادت میں پکارنا جائز ہے کیونکہ حاجات میں تو زندوں کو پکارنا بھی جائز نہیں جو کہ سب کے نزدیک سنتے ہیں، پھر مردوں کو پکارنا کس طر ح جائز ہو گا۔ واللہ أعلم۔