تشریح:
(1) بعض بدعقیدہ حضرات نے اس واقعے کا انکار کیا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک نبی ملک الموت کو تھپڑ مار دے اور مرنے سے انکار کرے، حالانکہ یہ ان کی جہالت ہے۔ اس واقعے میں کوئی استبعاد نہیں۔ نقلاً یہ واقعہ بالکل صحیح ہے، عقلاً بھی کوئی اشکال نہیں۔ بات صرف اتنی ہے کہ ملک الموت انجانی انسانی صورت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچے کہ میں تیری جان نکالنے آیا ہوں۔ ظاہر ہے اس طرح تو کوئی بھی شخص کسی بھی انسان کو جان نکالنے نہیں دیتا بلکہ اپنا دفاع کرتا ہے، لہٰذا انھوں نے انسان سمجھ کر ملک الموت کو تھپڑ مارا۔ تھپڑ چہرے پر لگا اور آنکھ کو نقصان پہنچا۔ فرشتہ جب انسانی صورت میں آئے گا تو اس پر انسانی احکام ہی لاگو ہوں گے، لہٰذا آنکھ کے نقصان پر کوئی تعجب نہیں۔ فرشتے نے اللہ تعالیٰ سے شکایت کی تو اللہ تعالیٰ نے آنکھ درست کر کے بھیجا تو موسیٰ علیہ السلام سمجھ گئے کہ یہ انسان نہیں فرشتہ ہے (تبھی تو آنکھ فوراً ٹھیک ہوگئی۔) لہٰذا فوراً موت کے لیے تیار ہوگئے اگرچہ انھیں لمبی زندگی کی پیش کش کی گئی تھی۔ بتائیے اس میں کون سا عقلی اشکال ہے جس کی بنا پر صحیح حدیث کا انکار کیا جائے؟ [وکم من عائب قولا صحیحا و افته من الفھم السقیم] ”کتنے ہی نقص نکالنے والے راست بول کو معیوب سمجھتے ہیں ان (عیب جوؤں) پر یہ سختی کمزور فہم کی وجہ سے ہوئی۔“
(2) ”آنکھ پھوڑ دی“ یہ دلیل ہے کہ فرشتہ انسانی صورت میں آیا تھا، ورنہ فرشتے کی تو آنکھ نظر ہی نہیں آتی، پھوٹے گی کیسے؟
(3) ”مرنا نہیں چاہتا“ یہ ملک الموت کا ظاہری حالات سے اندازہ ہے، ورنہ یہ وجہ نہ تھی بلکہ تھپڑ مارنے کی وجہ یہ تھی کہ فرشتہ اس حالت میں نہیں آیا تھا جس حالت میں روح قبض کرتا ہے، اس لیے انھوں نے اسے انسان سمجھا اور اپنا دفاع فرمایا، اور یہ ان کا حق تھا۔
(4) ”بیل کی پشت پر ہاتھ رکھے“ اس بات کا مقصد دراصل فرشتے کو یہ سمجھانا تھا کہ موسیٰ کا تھپڑ مارنا موت سے انکار کی بنا پر نہیں اور واقعتاً ایسا ہی ہوا۔ جب موسیٰ علیہ السلام کو پتا چل گیا کہ یہ فرشتہ ہے تو زندگی کی پیش کش قبول نہیں کی۔ درحقیقت یہ پیش کش نہیں تھی بلکہ موسیٰ علیہ السلام کی براءت مقصود تھی۔ ورنہ موت کا دن تو مقرر ہے۔ آگے پیچھے نہیں ہوسکتا، پیش کش کیسی؟
(5) ”قریب کر دیا جائے“ معلوم ہوا مقدس مقام میں دفن ہونے کی خواہش درست ہے کیونکہ پڑوس کا بھی اثر ہوتا ہے۔ حضرات ابوبکر صدیق و عمر فاروق و عائشہ رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوار میں دفن ہونا پسند فرمایا، خواہش کی، اجازت حاصل کی اور پہلے وہ بزرگ تو دفن بھی ہوئے۔
(6) ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا“ یہ پوری روایت ہی آپ کا فرمان ہے۔ اگرچہ اس سند میں آپ کا ذکر صرف آخر میں ہے۔
(7) اس روایت میں تسلی اس طرح ہے کہ جب آخر کار مرنا ہی مقدر ہے تو کسی کی موت پر ضرورت سے زائد گھبراہٹ کیوں؟