تشریح:
(1) ”جنت کے دروازیـ“ یعنی آسمانی جنت کے حقیقی دروازے کھول دیے جاتے ہیں، بطور استقبال کے، یہ بھی ممکن ہے کہ مراد وہ کام ہوں جو جنت میں جانے کا سبب ہیں، یعنی ان کاموں کا کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ واقعتا رمضان المبارک میں ہر شخص کے لیے نیکی کے کام بہت آسان ہو جاتے ہیں۔ پہلے معنیٰ حقیقت کے زیادہ قریب ہیں۔
(2) آگ کے دروازوں سے مراد بھی وہ دونوں معانی ہو سکتے ہیں جو اوپر بیان ہوئے۔
(3) ”شیطان“ حقیقی شیطان یا گمراہی کے اسباب تقریباً ختم ہو جاتے ہیں۔ رمضان المبارک میں عموماً ہر طرف نیکی کا دور دورہ ہوتا ہے اور برائی کرنا مشکل مگر یہ سب کچھ ایمان والوں کے لیے ہے۔ ایمان نہ ہو تو رمضان اور غیر رمضان برابر ہیں۔
(4) جنت اور جہنم کوئی خیالی چیزیں نہیں بلکہ ان کا وجود حقیقی ہے۔ ان کے دروازے بھی ہیں جو کھولے اور بند کیے جاتے ہیں۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في " السلسلة الصحيحة " 3 / 292 :
أخرجه مسلم ( 3 / 121 ) و النسائي ( 1 / 298 و 299 ) و أحمد ( 2 / 257 و 378 )
من طريق أبي سهيل عن أبيه عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله
عليه وسلم قال : فذكره ، إلا أن النسائي قال : " دخل " مكان " جاء " . لكن في
رواية أخرى عنده من طريق ابن أبي أنس مولى التيميين أن أباه حدثه أنه سمع أبا
هريرة يقول : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : فذكره بلفظ : " إذا جاء رمضان
فتحت أبواب الرحمة و غلقت أبواب جهنم و سلسلت الشياطين " . و من هذا الوجه
أخرجه البخاري ( 1 / 474 و 2 / 321 ) و أحمد ( 2 / 281 و 401 ) و قال هو
و البخاري : " دخل " بدل " جاء " . و قال مسلم " إذا كان ... " و قال البخاري :
" أبواب السماء " مكان " أبواب الجنة " . و كذلك رواه الدارمي ( 2 / 26 )
و لكنه قال : " إذا جاء ... و صفدت الشياطين " .