تشریح:
(1) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کو نفاس کا خون آنے کی وجہ سے غسل کرنے کا حکم دیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ خون نجس اور پلید ہے جس طرح خون حیض نجس ہوتا ہے کیونکہ اس کی نجاست پر بھی علمائے کرام کا اجماع ہے۔ رہا یہ اعتراض کہ خون تو ابھی منقطع نہیں ہوا، لہٰذا نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کا محل کیا ہے؟ لگتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اثنائے نفاس غسل کا حکم بطور نظافت کے دیا ہے کیونکہ حالت احرام میں نظافت مطلوب ہے، لہٰذا جب اس حالت میں غسل کا حکم ہے تو خون منقطع ہونے کے بعد تو بالاولیٰ اسے یہ حکم ہوگا تاکہ کمال طہارت حاصل ہو جائے، غالباً امام نسائی رحمہ اللہ کی یہی مراد ہے۔ اس طرح حدیث اور باب میں باہم مطابقت کی صورت نکل آتی ہے کیونکہ امام صاحب نے بھی ’’الإغتسال من النفاس‘‘ کہا ہے، یعنی خون نفاس کی وجہ سے غسل کا بیان، نہ کہ ان کی غرض یہ ہے کہ غسل کا حکم صرف خون منقطع ہونے کے وقت ہے۔ اس صورت میں واقعی باب کی حدیث سے مطابقت نہیں ہوتی جیسا کہ امام سندھی رحمہ اللہ سمجھے ہیں۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبیٰ شرح سنن النسائي: ۲۹۷/۴)
(2) حیض یا نفاس والی عورت کے لیے غسل کرنے کے بعد حج یا عمرے کا احرام باندھ کر تلبیہ پکارنا مشروع ہے۔
الحکم التفصیلی:
قلت: فقد خفيت علمِه رواية الحاكم هذه؛ وهو أخرجها من طريقين آخرين
عن إسماعيل بن أبي أويس: ثنا سليمان بن بلال: ثنا هشام... به.
وأما أحمد؛ فرواه من طريق معمر عن هشام... به.
وأخرجه البيهقي (1/39) من طريقين آخرين عن إسماعيل... به.