تشریح:
(1) ”روزہ میرے لیے ہے۔“ سب عبادات ہی اللہ تعالیٰ کے لیے ہوتی ہیں، مگر روزے کی تخصیص کی وجہ غالباً یہ ہے کہ روزے میں ریا کاری ممکن نہیں کیونکہ اس کی کوئی ظاہر علامت نہیں جسے کوئی دیکھ سکے روزے کے علاوہ باقی تمام عبادات میں لوگوں کی طرف سے تعریف ممکن ہے، مثلاً: نماز اور حج وغیرہ کیونکہ یہ عبادات لوگوں کو نظر آتی ہیں، جبکہ روزہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کے علم میں ہوتا ہے۔
(2) ”میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔“ یعنی کوئی دوسرا اس کا بدلہ نہیں دے سکتا کیونکہ وہ اس کا ثواب جانتا ہی نہیں، صرف میں ہی جانتا ہوں، لہٰذا میں ہی اس کا بدلہ دوں گا جیسا کہ حدیث نبمبر (۲۲۱۷) میں ہے کہ ہر نیکی کا بدلہ دس سے سات سو گنا تک ہے۔ سوائے روزے کے کہ وہ بے حساب ہے، نیز روزے کا بدلہ جنت ہے اور جنت کوئی اور نہیں دے سکتا۔
(3) ”جب روزہ کھولتا ہے۔“ اس وقت خوشی اللہ تعالیٰ کے فریضے کی تکمیل کی وجہ سے ہوتی ہے یا طبعی خوشی مراد ہے جو ہر انسان کو کھانے سے حاصل ہو تی ہے۔
(4) ”جب اپنے رب کو ملے گا۔“ اس وقت خوشی ہوگی، اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور روزے کا ثواب دیکھ کر اور یہی حقیقی خوشی ہے۔
(5) ”روزے دار کے منہ کی بو۔“ جو معدہ خالی ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ دنیا میں انسان خوشبو والے شخص کو اپنے قریب کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی روزے دار کو اپنے قریب فرمائے گا اور اس سے محبت فرمائے گا گویا یہ بو جو روزے کی حالت میں منہ سے آتی ہے، قیامت کے دن کستوری کی خوشبو کا تمثیل اختیار کرے گی۔ ممکن ہے دنیا ہی میں روزے کی حالت کی بو اللہ تعالیٰ یا فرشتوں کو کستوری سے بڑھ کر خوشبو دار معلوم ہوتی ہو۔ ﴿إنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ﴾ (الأنفال: ۷۵)
(6) اللہ کی صفت کلام کا اثبات ہوتا ہے، نیز پتا چلتا ہے کہ اللہ کا کلام صرف قرآن مجید ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے اور جو چاہتا ہے کلام فرماتا ہے۔ مذکورہ بالا حدیث، حدیث قدسی ہے۔ حدیث قدسی دراصل اللہ ہی کا کلام ہوتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس کی بطور عبادت تلاوت نہیں کی جاتی۔