تشریح:
(1) فرضیت روزہ کے ابتدائی دور میں روزہ فرض تو تھا مگر کوئی شخص بلا عذر روزہ چھوڑنا چاہتا تو اسے اجازت تھی کہ روزہ نہ رکھے مگر اسے فدیہ دینا پڑتا تھا، پھر بعد میں دوسری آیت اتری: ﴿فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ﴾ ”تم میں سے جو شخص اس مہینے میں موجود ہو، وہ لازماً روزہ رکھے۔“ تو اس سے فدیہ والی رخصت ختم ہوگئی اور ہر تندرست اور گھر میں موجود شخص کے لیے روزہ رکھنا لازم ہوگیا، البتہ یہ رخصت اس شخص کے لیے باقی ہے جو انتہائی ضعیف ہونے کی وجہ سے روزہ نبھا نہیں سکتا اور اس کی قوت وصحت کی بھی کوئی امید نہیں۔
(2) قرآن میں نسخ ثابت ہے اور اس پر امت کا اجماع ہے۔
(3) فرضت روزہ کا تدریجی حکم امت مسلمہ کی آسانی کے لیے تھا۔