تشریح:
(1) ”چرنے والے۔“ ان جانوروں میں زکاۃ فرض ہے جو سارا سال یا سال کا اکثر حصہ جنگل وغیرہ میں چر کر گزارتے ہوں، ان کو خود چارا نہ ڈالنا پڑے الا شاذ ونادر۔
(2) ”ہر چالیس اونٹوں میں۔“ یعنی ۱۲۰ اونٹوں کے بعد کیونکہ ۱۲۰ تک تو اونٹوں کی مخصوص زکاۃ ہے جس کا بیان آگے آرہا ہے۔
(3) ”بنت لبون“ اس سے مراد وہ اونٹنی ہے جس کی عمر دو سال ہو چکی ہو اور وہ تیسرے میں شروع ہو۔
(4) ”انھیں الگ نہ کیا جائے گا۔“ یعنی دو شریک زکاۃ کے ڈر سے اپنے اپنے اونٹ الگ نہیں کریں گے، مثلاً: ایک کے تین اور دوسرے کے دو اونٹ ہوں تو اس طرح ایک بکری زکاۃ واجب ہوتی ہے۔ جدا جدا کر لیے جائیں تو کچھ بھی واجب نہیں ہوتا۔ یا کچھ اونٹ کمزور یا عمر کے لحاظ سے چھوٹے ہوں تو وہ گنتی میں پورے ہی شمار ہوں گے، البتہ زکاۃ میں معین عمر والا اور درمیانہ (موٹاپے کے لحاظ سے) جانور لیا جائے گا۔
(5) ”نصف اونٹ بھی لیں گے۔“ یہ اقدام بطور سزا ہے۔ اسلامی حکومت کا اہل کار زبردستی کارندوں کے ذریعے سے زکاۃ کے ساتھ ساتھ جبراً، جس مال میں زکاۃ واجب ہوئی ہو، وہ آدھا مال بھی لے سکتا ہے اور وہ بیت المال میں جمع ہوگا۔ حدیث کی روشنی میں یہی موقف راجح ہے۔ لیکن جمہور علمائے کرام مالی سزا کو غیر مشروع قرار دیتے ہیں، ان کے بقول صرف زکاۃ ہی وصول کی جائے گی، مذکورہ حدیث کو انھوں نے وقتی سزا قرار دیا ہے یا وہ اس حکم کے نسخ کے قائل ہیں لیکن یہ دونوں باتیں ہی محل نظر ہیں جبکہ مذکورہ حدیث مذکورہ سزا کی بین دلیل ہے۔
(6) ”جائز نہیں۔“ تاکہ کسی کے ذہن میں یہ خیال تک نہ آئے کہ نبوت کا دعویٰ مال اکٹھا کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔
الحکم التفصیلی:
قلت : وإنما هو حسن للخلاف المعروف في بهز بن حكيم .