تشریح:
(۱) حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ عمرو بن شعیب کے دادا نہیں بلکہ پردادا ہیں۔
(۲) ”یہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے لیے ہیں۔“ یعنی یہ بیت المال کے ہیں، اللہ اور اس کے رسولﷺ کے دین اور مرضی کی راہ میں ہیں تاکہ صحیح مصرف میں صرف کر دیے جائیں۔ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺ کا ذکر دیناً اور تبرکاً ہے۔ آپ بیت المال کے والی تھے، اس لیے آپ کا ذکر کیا ورنہ زکاۃ اور صدقہ آپ نے نہ صرف اپنے لیے بلکہ پورے خاندان کے لیے حرام کر رکھا تھا…ﷺ…
(۳) کیا زیورات میں زکاۃ ہے؟ اس بارے میں علماء کے دو مشہور قول ہیں، بعض علماء کا کہنا ہے کہ زیورات میں زکاۃ نہیں اور بعض کا قول یہ ہے کہ زیورات میں زکاۃ واجب ہے دونوں اقوال میں سے دوسرا قول دلائل کے لحاظ سے زیادہ قوی ہے اور اس کی تائید چند صحیح روایات سے بھی ہوتی ہے، لہٰذا درست موقف یہی ہے کہ وہ زیورات جو زکاۃ کے نصاب کو پہنچیں ان کی زکاۃ ادا کی جائے گی۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبیٰ شرح سنن النسائی: ۲۲/ ۱۷۹-۱۸۱) سونے کا نصاب ۲۰ دینار ہے جیسا کہ مرفوع روایت میں ہے۔ اس دور میں ۲۰ دینار ۲۰۰ درہم کے برابر تھے۔ آج کل سونے چاندی کے بھاؤ میں یہ تناسب نہیں رہا۔ ۲۰ دینار کا وزن تقریباً ساڑھے سات تو لے بنتا ہے۔ اس کی قیمت چاندی کے نصاب سے بہت زیادہ ہے، اس لیے بعض محققین نے سونے میں بھی چاندی کے نصاب ہی کو معتبر سمجھا ہے، یعنی ۲۰۰ درہم یا ساڑھے باون تولے چاندی کے برابر سونا ہو تو اس میں زکاۃ ہوگی، مگر یہ موقف مرجوح ہے۔ جمہور نے اسے قبول نہیں کیا۔ واللہ أعلم۔ البتہ ان کے برعکس عصر حاضر کے بعض علماء نے کرنسی کے نصاب میں ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کے بجائے ساڑھے سات تولے سونے کی قیمت کو نصاف بنانے کی رائے ظاہر کی ہے۔ یہ رائے قابل غور ہو سکتی ہے لیکن اس سے زکاۃ کا اصل مقصد فوت ہو جائے گا۔ زکاۃ کا مقصد تو غرباء ومساکین کی امداد اور جہاد اور مجاہدین کی ضروریات کا پورا کرنا ہے۔ سونے کے نصاب کو کرنسی کی زکاۃ کا نصاب مقرر کرنے سے لاکھوں اصحاب حیثیت زکاۃ سے مستثنیٰ قرار پا جائیں گے، جس کا نقصان دینی اداروں اور معاشرے کے ضرورت مندوں کو ہوگا۔