تشریح:
(1) مندرجہ بالا واقعہ بنی اسرائیل کا ہے۔ جب تک ہماری شریعت پہلی شریعتوں کی کسی بات کی تردید نہ کرے، اس وقت تک پہلی بات بھی حجت ہے۔ مذکورہ واقعہ بھی نبیﷺ نے بیان فرما کر تصدیق فرما دی، لہٰذا حجت ہے۔ اسی طرح کسی کا خواب حجت تو نہیں ہوتا مگر نبی کریمﷺ کی تصدیق سے یہ بھی حجت بن گیا۔
(2) اس واقعے سے معلوم ہوا کہ اگر غلطی یا لا علمی سے زکاۃ کسی ایسے شخص کو دے دی گئی ہو جو مستحق نہیں تھا تو ادا کرنے والے شخص پر کوئی ملامت نہیں، نیز وہ بریٔ الذمہ ہو جاتا ہے، اگرچہ لینے والے کے لیے جائز نہیں، البتہ اس واقعے میں یہ صراحت نہیں کہ وہ صدقہ فرض تھا یا نفل۔ ہاں، اگر جان بوجھ کر غیر مستحق کو ادا کرے تو وہ بریٔ الذمہ نہ ہوگا۔
(3) چور اور زانیہ اگر فقیر تھے تو وہ صدقے کے مستحق تھے۔ ہو سکتا ہے کہ چور فقر کی وجہ سے چوری کرتا ہو اور زانیہ بھی فقر کی وجہ سے زنا کا ارتکاب کرتی ہو۔ اگرچہ اس صورت میں بھی یہ جرائم ان کے لیے جائز نہ تھے مگر ان جرائم کے باوجود وہ فقر کی وجہ سے زکاۃ کے مستحق تھے۔ صدقہ کرنے والے کا اظہار افسوس عرف کے طور پر تھا کیونکہ عموماً جرائم پیشہ لوگوں کو صدقہ نہیں دیا جاتا، مگر شرعاً ایسی کوئی پابندی نہیں۔ ممکن ہے ان سے تعاون ان کی اصلاح کا سبب بن جائے۔