تشریح:
مذکورہ روایت اور اگلی روایت کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین میں سے بعض نے حسن قرار دیا ہے، بعض نے صحیح اور بعض نے اسنادہ قوی کا حکم لگایا ہے، نیز انھوں نے ان احادیث پر تحقیقی بحث کرتے ہوئے ان کے شواہد اور متابعات کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: ۲۲/ ۳۴۹- ۳۵۱، والموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد: ۱۴/ ۴۹۸، وصحیح سنن النسائي للألباني: ۲/ ۲۰۳، رقم: ۲۵۲۶، ۲۵۲۷) علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ گنتی کو نہیں دیکھتا بلکہ خرچ کرنے والے کے جذبے اور اس کے دل کی حالت کو دیکھتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ﴾ (الحج: ۳۷) ”اللہ تعالیٰ کے پاس قربانی کے گوشت اور ان (قربانی والے جانوروں) کے خون نہیں پہنچتے، بلکہ اس کے پاس تمہارا تقویٰ اور خلوص پہنچتا ہے۔“ یاد رہے اجر بھی اسی چیز کا ہے۔