تشریح:
(1) مٹی پر ہاتھ رگڑنا بدبو اور لیس کو ختم کرتا ہے اور آلودگی سے وسوسے کو بھی دور کر دیتا ہے، لہٰذا استنجے کے بعد یہ مستحب ہے۔
(2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں فرش کچے ہوتے تھے، لہٰذا غسل کا پانی پاؤں میں جمع ہو جاتا تھا۔ اسی جگہ پاؤں دھونے میں کوئی فائدہ نہ تھا، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک طرف ہٹ کر پاؤں دھوتے تھے، البتہ اگر پانی جمع نہ ہوتا ہو تو اسی جگہ پاؤں دھوئے جا سکتے ہیں۔
(3) غسل یا وضو کے بعد رومال استعمال کیا جا سکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کا رومال پیش کرنا، اس کے جواز کی دلیل ہے کہ آپ کے گھر میں رومال تھا۔ باقی رہا آپ کا واپس کرنا تو وہ کسی اور وجہ سے ہوگا، مثلاً: آپ چاہتے ہوں گے کہ پانی کچھ دیر جسم پر رہے تاکہ ٹھنڈک محسوس ہو، وغیرہ۔
(4) رومال پانی کے ساتھ ساتھ میل کچیل کو بھی اچھی طرح صاف کر دیتا ہے اور یہی غسل سے مطلوب ہے، نیز غسل کے بعد پانی کا جسم پر رہنا شرعاً مطلوب نہیں اور یہ رہ بھی نہیں سکتا، ہوا یا کپڑوں سے جلد یا بدیر خشک ہو ہی جائے گا۔
(5) جو شخص ٹب وغیرہ سے چلو بھر کر پانی لینا چاہے، اسے چاہیے کہ اپنی ہتھیلیاں پہلے دھولے تاکہ پانی آلودہ نہ ہو۔
(6) شرم گاہ دھونے کے لیے دائیں ہاتھ سے بائیں پر پانی ڈالنا چاہیے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم) .
إسناده: حدثنا عمرو بن علي الباهلي: ثنا محمد بن أبي عدي: ثني سعيد
عن أبي معشر عن النَّخَعِيِّ عن الأسود عن عائشة.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط مسلم ، وأبو معشر: هو زياد بن كلَيْب.
وسعيد: هو ابن أبي عروبة.
والحديث أخرجه أحمد (6/171) : ثنا محمد بن جعفر قال: ثنا سعيد.
وعبد الوهاب عن سعيد... به.
وقد جاء ضرب اليدين على الحائط من حديث ميمونة أيضا في رواية عنها؛
كما سنذكره فيما يليه.