تشریح:
(1) حج کی فرضیت تو اجماعی اور قطعی مسئلہ ہے، اختلاف ہے یہ کہ کب فرض ہوا۔ مشہور قول ۵ یا ۶ ہجری کا ہے مگر محقق بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ ۹ ہجری میں فرض ہوا، ورنہ آپ ۶ہجری میں عمرے کی بجائے حج کو جاتے۔ ۸ ہجری میں بھی فتح مکہ کے بعد آپ عمرہ کر کے واپس تشریف لے آئے، حالانکہ حج کے دن قریب تھے۔
(2) ”ایک آدمی۔“ یہ حضرت اقرع بن حابس تمیمی رضی اللہ عنہ تھے۔
(3) ”واجب ہو جاتا۔“ گویا حج کا حکم مطلق اترا تھا۔ اس میں ایک دفعہ یا ہر سال کی صراحت نہیں تھی۔ اس کا فیصلہ مصلحت مسلمین پر موقوف تھا۔ اگر آپ ’’ہر سال‘‘ میں مصلحت محسوس فرماتے تو ہر سال فرض ہو جاتا مگر یہ بات مصلحت کے خلاف تھی، اس لیے آپ نے اس شخص کی تائید نہ کی۔
(4) بعض مسائل میں شارع علیہ السلام نے جان بوجھ کر خاموشی اختیار فرمائی ہے تاکہ مسلمانوں کو سہولت رہے۔ ایسے مسائل میں سوال کے ذریعے سے تنگی پیدا کرنا بری بات ہے۔ اسی طرح شریعت کی عطا کردہ وسعت کوختم کر دینا بھی بے جا تشدد ہے۔ جن مسائل میں شریعت نے معاملہ کھلا چھوڑا ہے، اسے کھلا ہی رکھنا چاہیے۔ اپنی طرف سے پابندیاں نہ لگائی جائیں، مثلاً: لباس، حجامت، بود وباش اور دیگر عادات۔ اسی طرح نفلی عبادات میں شریعت کے صریح احکام ہی کو کافی سمجھا جائے اور لوگوں کو خواہ مخواہ تنگ نہ کیا جائے۔ کسی قوم کے رسوم و رواج جب تک صراحتاً شریعت کے خلاف نہ ہوں، ان پر پابندی نہ لگائی جائے اور نہ ان کا ثبوت ہی شریعت سے تلاش کیا جائے کیونکہ ثبوت کی ضرورت عبادات میں ہے نہ کہ عادات میں۔ عادات میں پابندی کا نہ ہونا ہی کافی ہے۔
(5) ”طاقت کے مطابق“ معلوم ہوا کہ ایک آدمی اپنی بساط اور طاقت کے مطابق ایک مامور بہ کام کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر مکمل طور پر بجا نہیں لا پاتا، تو جتنے کام سے وہ عاجز آگیا ہو، وہ اس سے ساقط ہو جائے گا۔ یہ بات نیکی کے کاموں کی ہے جنھیں کرنے کا شریعت نے حکم دیا ہے، البتہ جن کاموں سے روکا گیا ہے، ان میں استطاعت کی قید نہیں، ان سے ہر صورت میں مکمل طور پر بچنا ضروری ہے۔ واللہ أعلم
(6) امر ہر جگہ تکرار کا تقاضا نہیں کرتا اور نہ ہر جگہ عدم تکرار کا تقاضا کرتا ہے بلکہ موقع محل، سیاق، قرائن یا دلائل سے تعین کیا جائے گا۔
الحکم التفصیلی:
قلت : واسمه يزيد بن أمية وهو ثقة ومنهم من عده في الصحابة . وله في الدارمي والدارقطني ومسند الطيالسي ( 2668 ) وأ حمد ( 1 / 292 و 301 و 323 و 325 ) متابع من طريق سماك عن عكرمة عن ابن عباس باختصار . وهو إسناد لا بأس به في المتابعات . وعن على رضي الله عنه قال : ( لما نزلت ( ولله على الناس حج البيت من استطاع إليه سبيلا ) قالوا : يا رسول الله أفي كل عام ؟ فسكت فقالوا : يا رسول الله في كل عام ؟ قال : لا ولو قلت : نعم لوجبت فانزل الله ( يا أيها الذين آمنوا لا تسألوا عن أشياء ان تبد لكم تسؤكم ) ) . أخرجه الترمذي ( 1 / 155 ) وابن ماجه ( 2884 ) والدارقطني ( 281 ) وأحمد ( 1 / 113 ) عن على بن عبد الاعلى عن أبيه عن أبي البختري عنه . وقال الترمذي : ( حديث غريب ) . قلت : يعني ضعيف وعلته عبد الاعلى وهو ابن عامر الثعلبي ضعفه أحمد وأبو زرعة وغيرهما وابنه أحسن حالا منه خلافا لما يفيده كلام الحافظ في ( التقريب )
وعن أنس بن مالك نحو حديث ابن عباس دون قوله : ( ولم تستطيعوا . . . ) وزاد : ( ولما لم تقوموا بها عذبتم ) . أخرجه ابن ماجه ( 2885 ) . وإسناده صحيح كما قال البوصيري في ( الزوائد ) ( 178 / 2 )