تشریح:
(1) مروہ پر سر کے بال کاٹنا کسی عمرے ہی کے موقع پر ہو سکتا ہے کیونکہ حجۃ الوداع میں تو آپ نے حجامت منیٰ میں بنوائی تھی، پھر یہ عمرہ جعرانہ کی بات ہوگی جو ۸ ہجری میں فتح مکہ کے بعد ہوا۔ امام نووی اور ابن القیمL وغیرہ نے اسے اس پر محمول کیا ہے۔ اس وقت تک حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ مسلمان ہو چکے تھے اور اس بات پر اتفاق ہے کہ رسول اللہﷺ حجۃ الوداع میں عمرہ کر کے حلال نہیں ہوئے بلکہ حج کے بعد حلال ہوئے تھے۔
(2) ”ابن عباس نے کہا: نہیں۔“ یعنی میں نہیں جانتا۔ لیکن صحیح مسلم کی روایت میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کے الفاظ یہ ہیں: [لَاأَعْلَمُ ھِٰہِ اِلَّا حُجّقۃً عَلَیْکَ] (صحیح مسلم، الحج، حدیث: ۱۲۴۶) میں تو اسے آپ کے موقف کے خلاف سمجھتا ہوں کیونکہ آپ تمتع سے روکتے ہیں۔ اور مروہ پر آپ کا رسول اللہﷺ کی حجامت بنانا دلیل ہے کہ رسول اللہﷺ عمرے کے بعد حلال ہوئے تھے، لہٰذا رسول اللہﷺ کا حج تمتع ہوا تو پھر تم کیوں روکتے ہو؟ باب والی روایت کے آخری الفاظ بھی اسی معنیٰ (صحیح مسلم والی روایت کے معنیٰ) کی تائید کرتے ہیں۔ گویا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حجامت بنانے والے واقعے کو حجۃ الوداع سے قبل عمرے پر محمول کیا ہے۔ مگر صریح روایات میں ان کے خلاف ہیں، اس لیے بعض محققین نے مروہ پر حجامت بنانے کو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی غلط فہمی یا نسیان وخطا پر محمول کیا ہے۔ واللہ أعلم
(3) حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا تمتع سے روکنا حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی اقتدا کے طور پر تھا۔
(4) خلاف سنت کام کی تردید ضروری ہے چاہے کرنے والا کوئی بھی ہو کیونکہ حق سب سے بڑا ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين، لكن قوله: لحجته.. شاذ؛
إلا أن يتَأوَلَ بمعنى: لعمرته؛ فإنه ثابت في بعض الروايات الصحيحة) .
إسناده: حدثنا الحسن بن علي ومَخْلَد بن خالد ومحمد بن يحيى- المعنى-
قالوا: ثنا عبد الرزاق: أخبرنا مَعْمَر عن ابن طاوس عن أبيه عن ابن عباس.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ ولم يخرجاه من هذا للوجه،
وبزيادة: لحجته.
وهي زيادة شاذة عندي؛ لتفرد الحسن بن علي- وهو الحلْوَاني- بها دون
الشيخين الآخرين، لا سيما وقد توبعا كما يأتي.
والحديث أخرجه النسائي (2/43) : أخبرنا محمد بن يحيى بن عبد الله قال:
حدثنا عبد الرزاق... به دون الزيادة.