تشریح:
(1) ”عمرے کا احرام باندھا“ تفصیل سابقہ حدیث میں گزر چکی ہے۔
(2) ”اپنا سر کھول لو…“ ان الفاظ سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہؓ نے عمرے کا احرام چھوڑ کر صرف حج کا احرام باندھا تھا اور انھوں نے صرف حج کیا تھا جیسا کہ احناف کا خیال ہے۔ لیکن درست بات یہی ہے کہ حضرت عائشہؓ نے حج اور عمرہ دونوں کیے تھے جیسا کہ گزشتہ روایت میں اس کی تفصیل ہے۔ ”عمرہ چھوڑ دے۔“ سے مراد یہ ہے کہ عمرے کے افعال واعمال چھوڑ دے اور حج کا احرام باندھ لے کیونکہ عمرے کے اعمال حج کے اعمال میں داخل ہوگئے ہیں۔ اور نبیﷺ کا یہ فرمانا: ”تو اپنے حج اور عمرے دونوں سے حلال ہوگئی۔“ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ حضرت عائشہؓ کا حج اور عمرہ دونوں ہو گئے تھے اور تنعیم والا عمرہ محض حضرت عائشہؓ کے اطمینان قلب کے لیے تھا۔ واللہ أعلم
(3) ”سر کے بال کھول لو اور کنگھی کرو“ احرام میں کنگھی کی جا سکتی ہے یا نہیں؟ اس کے بارے میں اختلاف ہے۔ احناف ناجائز کہتے ہیں۔ بعض نے عذر کی بنا پر جائز کہا ہے جبکہ جمہور مطلق جائز سمجھتے ہیں۔ راجح بات جمہور اہل علم کی ہے کیونکہ کنگھی نہ کرنے کی کوئی دلیل نہیں، لہٰذا احناف کا ان الفاظ سے عمرہ ختم کرنے کا استدلال درست نہیں۔ واللہ أعلم
(4) ”صرف ایک طواف کیا“ ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے منیٰ سے واپس آکر طواف نہیں کیا، حالانکہ یہ حقیقت کے خلاف ہے۔ یہ طواف تو فرض ہے۔ تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔ (دیکھیے حدیث: ۲۷۴۷، فائدہ: ۳)
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه) .
إسناده: حدثنا القعنبي عن مالك عن ابن شهاب عن عروة بن الزبير عن
عائشة زوج النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أنها قالت...
قال أبو داود: " رواه إبراهيم بن سعد ومعمر عن ابن شهاب... نحوه؛ لم
يذكروا طواف الذين أهلوا بعمرة، وطواف الذين جمعوا بين الحج والعمرة ".
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وقد أخرجاه من طريق مالك
أيضا، وهذا في "الموطأ"، وهو مخرج في "الإرواء " (1159) .