تشریح:
(1) ’’پیش کیا‘‘ بعض دوسری روایات میں صراحت ہے کہ وہ زندہ نہیں تھا بلکہ ذبح شدہ کا کچھ حصہ پیش کیا گیا تھا۔
(2) ابواء اور ودان، مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان یہ دونوں مقامات قریب قریب ہیں۔
(3) ”واپس کر دیا“ حالانکہ سابقہ روایات کے مطابق آپ نے حضرت ابو قتادہ اور بہزی سے شکار قبول فرما لیا تھا، اس لیے اس مسئلے میں علماء کا اختلاف ہوگیا۔ صحیح اور محقق بات جس سے تمام صحیح احادیث پر عمل ہو جاتا ہے، یہ ہے کہ پہلے دو حضرات نے وہ جانور اپنے لیے شکار کیے تھے۔ بعد میں انھیں خیال آیا تو انھوں نے محرمین کو بطور ہدیہ دے دیے، لہٰذا ان کا کھانا محرمین کے لیے جائز تھا جبکہ حضرت صعب نے وہ جانور شکار ہی نبیﷺ کے لیے کیا تھا کہ آپ کو تحفتاً پیش کر سکیں، لہٰذا وہ محرمین کے لیے کھانا جائز نہیں تھا۔ یہ تفصیل حدیث نمبر ۲۸۳۰ میں آرہی ہے۔ جمہور اہل علم کا یہی مسلک ہے جن میں امام مالک، امام شافعی، امام احمد، امام اسحق و دیگر محدثین رحمہم اللہ شامل ہیں، جبکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ غیر محرم کے ہر شکار کو محرم کے لیے جائز سمجھتے ہیں بشرطیکہ اس نے کوئی تعاون نہ کیا ہو۔ قطع نظر اس سے کہ اس نے وہ شکار اپنے لیے کیا ہو یا محرم کے لیے۔ اور بعض نے قرآن مجید کی آیت کے ظاہر ﴿وَحُرِّمَ عَلَيْكُمْ صَيْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا﴾ (المآئدۃ: ۹۶) اور حضرت صعب والی اسی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے محرم کے لیے شکار کھانا کسی بھی حال میں جائز قر ار نہیں د یا، مگر ان دونوں مسلکوں پر عمل کرنے سے بہت سی احادیث عمل سے رہ جاتی ہیں، جو یقینا نا مناسب ہے، اس لیے جمہور اہل علم کا مسلک ہی صحیح ہے کیونکہ اس میں سب متعلقہ احادیث پر عمل ہو جاتا ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ کا رجحان بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔
(4) نبی اکرمﷺ صدقہ نہیں لیتے تھے، ہدیہ قبول فرما لیتے تھے۔