تشریح:
(1) سوال کرنے والا شخص یمنی تھا جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے دوسرے جواب سے ظاہر ہوتا ہے۔
(2) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا مقصود یہ ہے کہ سنت کی ادائیگی میں بساط بھر کوشش کرنی چاہیے۔ حیلے بہانوں سے اس سے فرار کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ ظاہر ہے ہر کام میں کچھ نہ کچھ محنت اور مشقت بلکہ تکلیف لازمی چیز ہے، لہٰذا اس سے گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ صبر اور حوصلے کے ساتھ لگے رہیں، مقصد میں کامیابی ہوگی اس سلسلے میں جو وقت اور تکلیف صرف ہوں گے، اس کا ثواب ملے گا، البتہ حجر اسود کی تقبیل کی خاطر کسی کو ایذا نہ پہنچائے، دھکم پیل نہ کرے بلکہ نرمی اور محنت سے مقصود حاصل کرے، ہاں اگر بغیر دھکم پیل یا مار دھاڑ کے تقبیل ممکن نہ ہو تو رہنے دے۔ یہ کوئی فرض نہیں جیسے کہ حدیث نمبر ۲۹۴۱ میں مذکور ہے۔
(3) اس روایت کا متعلقہ باب سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔ یہ روایت دراصل آئندہ باب سے متعلق ہے۔ یہ کسی ناسخ (ناقل) کے تصرف سے ہو گیا ہے۔