تشریح:
(1) یہ حدیث سابقہ حدیث ہی کی تفصیل ہے۔ اس موقع پر امیر حج تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی تھے مگر ”براء ت کا اعلان“ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خصوصی ذمے داری تھی کیونکہ اس قبائلی دور میں عہد کے متعلق کوئی اعلان نبیﷺ کا خاندانی شخص ہی کر سکتا تھا ورنہ مشرکین اسے معتبر نہ سمجھتے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی آپ کے ساتھ رشتے داری سے سب لوگ واقف تھے، لہٰذا اس اعلان کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو منتخب فرمایا گیا۔ دیگر اعلانات حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی سے کروائے، لہٰذا سابقہ حدیث اور اس حدیث میں کوئی اختلاف نہیں۔
(2) ”چار ماہ“ ظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس اعلان سے چار ماہ شمار ہوں گے لیکن بعض محققین نے براء ت کی آیت کے نزول سے چار ماہ شمار کیے ہیں، یعنی شوال، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم۔ آیت کے آئندہ الفاظ ﴿فَإِذَا انْسَلَخَ الأشْهُرُ الْحُرُمُ…﴾ (التوبة: ۹: ۵) اس کی تائید کرتے ہیں اور یہی بات صحیح ہے۔
(3) اس حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ہر عہد کی مدت چار ماہ مقرر فرما دی لیکن یہ بات درست نہیں۔ یا تو راوی کو غلطی لگی یا ضرورت سے زیادہ اختصار ہوگیا۔ دیگر احادیث میں وضاحت ہے کہ اعلان یوں تھا: ”جس شخص کا اللہ کے رسولﷺ کے ساتھ کوئی معاہدہ ہو چکا ہے تو وہ اپنی مقررہ مدت تک برقرار ہے۔ اور جس کے ساتھ آپ کا کوئی عہد نہیں (یا جس کی مدت مقرر نہیں) وہ چار ماہ تک امن میں ہے۔“ دیکھیے: (جامع الترمذي، باب ومن سورة التوبة، حدیث: ۳۰۹۲) مزید ملاحظہ ہو: (تفسیر ابن کثیر، سورۂ توبة، آیت: ۲، تحت الآیة ﴿فَسِيحُوا فِي الأرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ﴾ یعنی اس کے بعد مشرکین سے عام لڑائی ہے۔ ویسے بھی یہ بعید ہے کہ رسول اللہﷺ کسی سے کیے ہوئے عہد کو یکطرفہ طور پر ختم کر دیں۔ رسول اللہﷺ تو عہد کی بہت زیادہ پاسدار فرمانے والے تھے۔ ﷺ