تشریح:
(1) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے لیے تو یہ دن پہلے ہی سے عید تھا بلکہ دو وجوہ سے کیونکہ اس دن جمعہ بھی تھا اور حج بھی۔ جمعہ تو ہر ہفتہ کی عید ہے اور یوم عرفہ سالانہ، یعنی ہم اس تاریخ کو بھی عید مناتے ہیں (یعنی ۹ ذوالحجہ کو) اور اس دن کو بھی، یعنی جمعہ المبارک کو، لہٰذا ہمیں الگ طور پر اس آیت کے نزول کا جشن منانے کی ضرورت نہیں۔ ویسے بھی اسلام کا مزاج جشن منانے والا نہیں بلکہ عبادت کا ہے اور وہ پہلے سے ہو رہی ہے۔
(2) ”جمعے کی رات“ ممکن ہے آنے والی رات کو قرب کی بنا پر جمعے کی رات کہہ دیا ہو ورنہ یہ آیت تو جمعے کے دن اتری ہے، ہاں رات قریب تھی، اس لیے نسبت کر دی۔ واللہ أعلم