تشریح:
(1) ”چچا سابقہ روایت میں ’اموں“ کہا گیا ہے ایک رشتہ رضاعی ہو‘ دوسرا نسبی۔ اس دور میں رضاعی رشتے عام تھے کیونکہ دیگر عورتوں سے رضاعت کا بہت رواج تھا۔
(2) ”جھنڈا“ یعنی رسول اللہﷺ نے ایک آدمی کی طرف بھیجا ہے۔
(3) ”اس کا مال چھین لوں“ گویا باپ کی منکوحہ سے نکاح ارتداد کے جرم کے برابر ہے‘ اس لیے اس کا مال بیت المال میں جمع ہوگا۔ جس طرح مرتد قتل کیا جاتا ہے اور اس کا مال اس کے ورثاء کو دینے کی بجائے بیت المال میں جمع ہوتا ہے۔ [لا يَرِثُ المُسْلِمُ الكافِرَ، وَلا يَرِثُ الكافِرُ المُسْلِمَ ]”مسلمان کافر کا وارث ہے نہ کافرمسلمان کا۔“ (صحیح البخاری‘ الفرائض‘ حدیث: ۶۷۶۴‘ وصحیح مسلم‘ الفرائض‘ حدیث: ۱۶۱۴)
(4) شریعت مطہرہ نے ہر ایک کے حقوق کی کماحقہ حفاظت کی ہے۔
(5) معلوم ہوتا ہے کہ ضبط مال کے ساتھ یا مالی جرمانے کے ساتھ بھی سزا دی جاسکتی ہے۔
(6) حاکم وقت سنگین جرم کی بنا پر تعذیراً قتل کی سزا دے سکتا ہے۔