تشریح:
(1) مذکورہ روایت کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف کہا ہے جبکہ ابوداود (حدیث: ۲۰۸۶) میں اس روایت کی تحقیق میں لکھتے ہیں کہ اس حدیث کے بہت زیادہ شواہد ہیں۔ لیکن ان شواہد کی صحت وضعف کی طرف اشارہ نہیں کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخ رحمہ اللہ کے نزدیک بھی اس حدیث کی کوئی نہ کوئی اصل ضرور ہے‘ نیز دیگر محققین نے مذکورہ روایت کو صحیح قراردیا ہے۔ بنا بریں مذکورہ روایت دلائل کی رو سے صحیح قرار پاتی ہے۔ واللہ أعلم۔
(2) ”حبشہ میں تھی“ دراصل یہ اپنے خاوند عبیداللہ بن جحش کے ساتھ حبشہ ہجرت کرکے گئی تھیں۔ کچھ دیر بعد مالی مفاد کی خاطر عبیداللہ بن حجش عیسائی بن گیا اور اسی ارتداد کی حالت میں فوت ہوا۔ حضرت ام حبیبہؓ اسلام پر قائم رہیں۔ آپ کو صورت حال کا پتہ چلا تو آپ نے حضرت عمروبن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ کو ان سے نکاح کا پیغام دے کر حضرت نجاشی شاہ حبش کے پاس بھیجا۔
(3) یہ ۶ یا سات ہجری کی بات ہے۔ اس وقت حضرت ام حبیبہؓ سے شادی کرنا ایک طرف تو ایک غریب الدیار عورت جو اپنے ماں باپ کو مستقلاً آپ کے لیے چھوڑ چکی تھی‘ واحد سہارا خاوند مرتد ہو کر مرچکا تھا‘ کی حوصلہ افزائی اور قدر بینی ہے۔ دوسری طرف یہ ایک بہت بڑا سیاسی فیصلہ ہے جس نے کفار قریش کی کمر توڑدی اور ابوسفیان آپ سے لڑنے کے قابل نہ رہے۔
(4) شادی کے موقع پر بیٹی یا بہن وغیرہ کی تالیف قلب کے لیے بطور تحفہ نیا گھر بسانے کے لیے ضرورت کی کچھ اشیاء دے دینا مستحب ہے۔ بیٹے کی شادی پر خرچ کرنا اور بیٹی کو خالی ہاتھ بھیج دینا مساوات اسلامی کے منافی ہے۔ البتہ اس میں غور اور تکلف نا جائز ہے‘ نیز اس سے مروجہ جہیز کے جواز پر استدلال بھی درست نہیں۔ یہ ایک غیر اسلامی رسم ہے جس میں بہت سی قباحتیں ہیں‘ مثلاً: جہیز نہ لانے پر لڑکی کے ساتھ بد سلوکی سے پیش آنا‘ روزانہ کی طعن وتشنیع سے اس کا جینا دوبھر کردینا‘ لڑکے والوں کی طرف سے جہیز کا اور اس میں مختلف چیزوں کا مطالبہ کرنا اور نتیجتاً لڑکی کے اولیاء کا قرض کے بارگراں تلے دب جانا وغیرہ جس کی تفصیل حدیث: ۳۳۸۶ کے فائدے میں دیکھی جاسکتی ہے۔
(5) ”چار سودرہم“ پیچھے گزر چکا ہے کہ یہ دس اوقیے کا ترجمہ ہے اور اس میں کسر گرائی گئی ہے ورنہ رسول اللہﷺکا مقرر کردہ عام مہر پانچ صد درہم تھا۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين، وكذا قال الحاكم، ووافقه
الذهبي، وصححه ابن الجارود) .
إسناده: حدثنا حجاج بن أبي يعقوب الثقفي: ثنا مُعَلَّى بن منصور: ثنا ابن
المبارك: ثنا معمر عن الزهري عن عروة عن أم حبيبة.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات رجال الشيخين؛ غير الحجاج،
فهو على شرط مسلم وحده، وقد توبع كما يأتي.
والحديث أخرجه الحاكم (2/181) من طريق محمد بن شاذان الجوهري: ثنا
معلى بن منصور... به. وقال:
صحيح على شرط الشيخين ! ووافقه الذهبي!
قلت: وهو من أوهامهما؛ فإن ابن شاذان هذا لم يخرج له الشيخان، بل ولا
أحد من بقية الستة؛ فقد ذكره الحافظ تمييزاً، وهو ثقة.
لكن أخرجه النسائي (2/88) ، وابن الجارود (713) ، والبيهقي (7/232) ،
وأحمد (6/427) من طرق أخرى عن عبد الله بن المبارك... به.