تشریح:
اس روایت میں امام نسائی رحمہ اللہ کے دواستاد ہیں: ہلال بن علاء اور عبداللہ بن محمد بن تمیم۔ بیان کردہ الفاظ عبداللہ کے ہیں۔
(1) نکاح سے قبل جو کچھ تحائف دیے جاتے ہیں‘ وہ عورت کی خاطر ہوتے ہیں‘ لہٰذا وہ عورت کے لیے شمار ہوں گے‘ اگرچہ کسی کو بھی ملیں‘ البتہ نکاح کے بعد چونکہ نئے رشتے قائم ہوجاتے ہیں‘ لہٰذا جسے تحفہ ملے گا‘ اسی کا شمار ہوگا۔
(2) کسی کو بیٹی یا بہن کا نکاح دینا بہت بڑا احسان ہے‘ لہٰذا بیوی کے باپ اور بھائی کا احترام لازماً ہے کیونکہ نکاح کا اختیار انہیں تھا۔ بیوی کے باپ کو تیسرا باپ کہا گیا ہے۔ پہلا حقیقی والد‘ دوسرا استاد اور تیسرا سسر۔ اسی طرح بیوی کی والدہ کا بھی احترام ضروری ہے۔ اسی بنا پر تو اس سے نکاح حرام کردیا گیا اور اس سے پردہ نہیں رکھا گیا۔
(3) ظاہراً اس حدیث کا باب سے کوئی تعلق نہیں بنتا‘ الا یہ کہ کہا جائے کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مہر کی کوئی مقدار نہیں۔