تشریح:
(1) اشعر ایک قبیلہ تھا جس کی بنا پر حضرت ابوموسیٰ کو اشعری کہا جاتا تھا۔ جب یہ لوگ نبی ﷺ کے پاس پہنچے تھے تو اس وقت آپ کسی بنا پر غصے کی حالت میں تھے۔ ویسے آپ کے پاس اس وقت سوریاں تھی بھی نہیں۔
(2) ”میں نے نہیں دیں“ یعنی اب اللہ تعالیٰ نے اونٹ بھیج دیے جو میں نے تم کو دیے۔ باقی رہی قسم تو اس کا جواب آگے ذکر ہے۔
(3) اس حدیث میں قسم توڑنے سے پہلے کفارہ دینے کا ذکر ہے۔ جمہور اس کے قائل ہیں‘ البتہ احناف اسے درست نہیں سمجھتے کہ جب کفارہ کا سبب ہی واقع نہیں ہوا تو کفارہ کیسے ہوسکتا ہے؟ حالانکہ جب نیت قسم توڑنے کی ہوگئی تو بہتر ہے کفارہ پہلے دے دیا جائے تاکہ کفارہ لازم ہی نہ آئے اگرچہ بعد میں ادا کرنا بھی درست ہے۔