تشریح:
(1) ظاہری طور پر تو دونوں حدیثوں کی سندوں میں کوئی اختلاف نظر نہیں آتا کیونکہ اس روایت میں بھی ابن رافع‘ رافع بن خدیج سے بیان کررہے اور آئندہ حدیث میں بھی۔ تحفۃ الاشراف میں اس حدیث کی سند اس طرح ہے: اسید بن (اخي) رافع بن خدیج‘ قال رافع بن خدیج یعنی درمیان میں ’أخي‘ کے لفظ کا اضافہ ہے۔ اور یہی بات صحیح ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ کا تبصرہ: خالفه عبدالکریم بن مالك بھی اسی صورت میں صحیح بنتا ہے‘ ورنہ مخالفت نظر نہیں آتی۔ اس صورت میں گویا سعید بن عبدالرحمن بواسطہ مجاہد‘ رافع بن خدیج کے بھتیجے اسید سے بیان کرتے ہیں اور وہ رافع بن خدیج سے۔ جبکہ عبدالکریم بن مالک‘ رافع بن خدیج کے بھتیجے سے نہیں بلکہ بیٹے سے بیان کرتے ہیں اور وہ اپنے باپ رافع سے۔ بہر حال صحیح بات یہ ہے کہ رافع بن خدیج سے ان کا بیٹا ہی بیان کرتا ہے بھتیجا نہیں کیونکہ عبدالکریم بن مالک زیادہ ثقہ اور اثبت ہیں۔ واللہ أعلم۔
(2) ”دے دے“ یعنی اگر اس کے پاس فالتو ہے ورنہ اگر وہ خود غریب ہے اور کسی عذر کی بنا پر کاشت نہیں کرسکتا (مثلاً وہ بیمار ہے یا بیوہ یا یتیم ہے وغیرہ) تو بلاریب بٹائی پر کاشت کے لیے دے سکتا ہے۔