تشریح:
(1) مذکورہ روایت کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف کہا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح کہا ہے۔ اور دلائل کی رو سے انہی کی بات راجح معلوم ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔ تفصیل کے لیے دیکھیے (الموسوعة الحدیثیة، مسند الإمام أحمد: ۱۳،/ ۳۲۰،۳۲۱، وإرواء الغلیل: ۷/۸۰‘ وسنن ابن ماجه بتحقیق الدکتور بشارعواد، حدیث: ۱۹۶۹‘ وذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: ۲۸/ ۱۷۸)
(2) اعمال کی جزا اعمال کے مشابہ ہی ہوتی ہے کیونکہ اس شخص نے دنیا میں جانبداری کا رویہ قائم رکھا‘ لہٰذا قیامت کے دن ا س کی ایک جانب مفلوج ہوگی۔ اس جھکاؤ سے مراد دلی جھکاؤ نہیں بلکہ ظاہری سلوک (مثلاً باری‘ نفقہ وغیرہ) میں جھکاؤ ہے کیونکہ دل کا معاملہ تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ بہت سے دلی معاملات میں انسان بے بس ہوتا ہے‘ لہٰذا اس پر گرفت نہیں ہوگی۔