تشریح:
(1) ”بہت ڈرے“ کیونکہ اس آیت میں سخت وعید ہے کہ قاتل ابدی جہنمی ہے، مغضوب و ملعون ہے، عذاب عظیم کا مستحق ہے۔ جبکہ یہ حالت تو کفار کی ہو گی۔ سورۂ فرقان والی آیت میں شرک و قتل کے بعد توبہ کا ذکر ہے، اس لیے اس آیت میں لوگوں کے لیے سہولت ہے۔
(2) حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالٰی عنہ کی سابقہ دو روایات میں صراحت ہے کہ سورۂ فرقان والی آیت پہلے اتری ہے اور سورۂ نساء والی آیت بعد میں۔ لیکن اس روایت میں بالکل الٹ ہے کہ سورۂ نساء والی آیت پہلے اتری اور سورۂ فرقان والی آیت بعد میں۔ یہ صریح تعارض ہے، اس لیے محققین نے اس روایت کو منکر (ضعیف) قرار دیا ہے۔ ممکن ہے غلط فہمی ہو کہ سورۂ نساء والی پہلے اتری۔ بعد میں پتا چل گیا ہو کہ سورۂ فرقان والی پہلے اتری ہے کیونکہ انہوں نے صراحت فرمائی ہے کہ سورۂ نساء والی آیت چھ یا آٹھ ماہ بعد اتری ہے۔ قریب قریب اترنے والی آیات میں ایسی غلط فہمی ممکن ہے۔ خیر! حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ والی روایات قطعی ہیں کہ سورۂ فرقان والی آیت پہلے اتری ہے، نیز سورۂ فرقان مکی ہے اور سورۂ نساء مدنی۔ اس لحاظ سے بھی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ والی روایات کو ترجیح ہو گی۔ سنداً بھی وہ قوی ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی ان روایات کا مفاد یہ ہے کہ توبہ والی آیت کفار کے ساتھ خاص ہے اور سزا والی مومنین کے ساتھ، یا پھر توبہ والی آیت منسوخ ہے کیونکہ وہ متقدم ہے۔ تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔ جمہور توبہ کے قائل ہیں۔ سزا والی آیت تب لاگو ہو گی جب وہ توبہ نہ کرے یا اس سے قصاص نہ لیا جائے یا اللہ تعالیٰ اسے معاف نہ کرنا چاہیں۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ اس گناہ کی انفرادی سزا ہے۔ جب اس گناہ کے ساتھ نیکیاں بھی ملیں گی تو پھر ہر گناہ کی سزا اور ہر نیکی کا ثواب ملانے سے جو مرکب نتیجہ حاصل ہو گا، اس کے مطابق اس سے سلوک ہو گا۔ و اللہ أعلم۔ (دیکھئے، حدیث: ۳۹۸۹، ۴۰۰۴)