قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

سنن النسائي: كِتَابُ المُحَارَبَة (بَابٌ الْحُكْمُ فِي الْمُرْتَدِّ)

حکم : صحیح 

4067. أَخْبَرَنَا الْقَاسِمُ بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ دِينَارٍ قَالَ: حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ مُفَضَّلٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَسْبَاطٌ قَالَ: زَعَمَ السُّدِّيُّ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ فَتْحِ مَكَّةَ أَمَّنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ، إِلَّا أَرْبَعَةَ نَفَرٍ وَامْرَأَتَيْنِ وَقَالَ: «اقْتُلُوهُمْ، وَإِنْ وَجَدْتُمُوهُمْ مُتَعَلِّقِينَ بِأَسْتَارِ الْكَعْبَةِ، عِكْرِمَةُ بْنُ أَبِي جَهْلٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ خَطَلٍ وَمَقِيسُ بْنُ صُبَابَةَ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ أَبِي السَّرْحِ»، فَأَمَّا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ خَطَلٍ فَأُدْرِكَ وَهُوَ مُتَعَلِّقٌ بِأَسْتَارِ الْكَعْبَةِ فَاسْتَبَقَ إِلَيْهِ سَعِيدُ بْنُ حُرَيْثٍ وَعَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ فَسَبَقَ سَعِيدٌ عَمَّارًا، وَكَانَ أَشَبَّ الرَّجُلَيْنِ فَقَتَلَهُ، وَأَمَّا مَقِيسُ بْنُ صُبَابَةَ فَأَدْرَكَهُ النَّاسُ فِي السُّوقِ فَقَتَلُوهُ، وَأَمَّا عِكْرِمَةُ فَرَكِبَ الْبَحْرَ، فَأَصَابَتْهُمْ عَاصِفٌ، فَقَالَ أَصْحَابُ السَّفِينَةِ: أَخْلِصُوا، فَإِنَّ آلِهَتَكُمْ لَا تُغْنِي عَنْكُمْ شَيْئًا هَاهُنَا. فَقَالَ عِكْرِمَةُ: وَاللَّهِ لَئِنْ لَمْ يُنَجِّنِي مِنَ الْبَحْرِ إِلَّا الْإِخْلَاصُ، لَا يُنَجِّينِي فِي الْبَرِّ غَيْرُهُ، اللَّهُمَّ إِنَّ لَكَ عَلَيَّ عَهْدًا، إِنْ أَنْتَ عَافَيْتَنِي مِمَّا أَنَا فِيهِ أَنْ آتِيَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَضَعَ يَدِي فِي يَدِهِ، فَلَأَجِدَنَّهُ عَفُوًّا كَرِيمًا، فَجَاءَ فَأَسْلَمَ، وَأَمَّا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ أَبِي السَّرْحِ، فَإِنَّهُ اخْتَبَأَ عِنْدَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، فَلَمَّا دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ إِلَى الْبَيْعَةِ، جَاءَ بِهِ حَتَّى أَوْقَفَهُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بَايِعْ عَبْدَ اللَّهِ، قَالَ: فَرَفَعَ رَأْسَهُ، فَنَظَرَ إِلَيْهِ، ثَلَاثًا كُلَّ ذَلِكَ يَأْبَى، فَبَايَعَهُ بَعْدَ ثَلَاثٍ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ: «أَمَا كَانَ فِيكُمْ رَجُلٌ رَشِيدٌ يَقُومُ إِلَى هَذَا حَيْثُ رَآنِي كَفَفْتُ يَدِي عَنْ بَيْعَتِهِ فَيَقْتُلُهُ» فَقَالُوا: وَمَا يُدْرِينَا يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا فِي نَفْسِكَ، هَلَّا أَوْمَأْتَ إِلَيْنَا بِعَيْنِكَ؟ قَالَ: «إِنَّهُ لَا يَنْبَغِي لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ خَائِنَةُ أَعْيُنٍ»

مترجم:

4067.

حضرت مصعب بن سعد اپنے والد محترم (حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ ) سے بیان فرماتے ہیں: جس دن مکہ مکرمہ فتح ہوا، رسول اللہ ﷺ نے چار مردوں اور دو عورتوں کے سوا تمام لوگوں کو امان دے دی۔ آپ نے فرمایا: ”اگر تم ان کو کعبہ شریف کے پردوں سے لٹکا ہوا پاؤ، تب بھی قتل کر دو۔“ (وہ چار مرد یہ تھے:) عکرمہ بن ابی جہل، عبداللہ بن خطل، مقیس بن صبابہ اور عبداللہ بن سعد بن ابی سرح۔ عبداللہ بن خطل کعبے کے پردوں سے لٹکا ہوا پایا گیا۔ حضرت سعید بن حریث اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالٰی عنہ اس کی طرف لپکے۔ سعید عمار سے پہلے پہنچ گئے کیونکہ وہ عمار کی نسبت جوان تھے۔ انہوں نے اسے قتل کر دیا۔ مقیس بن صبابہ کو لوگوں نے بازار میں پکڑ لیا اور قتل کر دیا۔ عکرمہ بھاگ کر سمندر میں کشتی پر سوار ہو گیا۔ بہت تیز ہوا چل پڑی۔ (کشتی طوفان میں پھنس گئی۔) کشتی والے کہنے لگے: اب خالص اللہ تعالیٰ کو پکارو کیونکہ تمہارے معبود (بت وغیرہ) یہاں (طوفان میں) تمہیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتے۔ عکرمہ نے کہا: اگر سمندر میں خالص اللہ تعالیٰ کو پکارنے کے علاوہ نجات نہیں تو خشکی میں بھی خالص اللہ تعالیٰ کو پکارے بغیر نجات نہیں مل سکتی۔ اے اللہ! میں تجھ سے عہد کرتا ہوں کہ اگر تو مجھے اس مصیبت سے، جس میں میں پھنس چکا ہوں، بچا لے تو میں ضرور حضرت محمد ﷺ کے پاس جا کر اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دے دوں گا اور مجھے یقین ہے کہ میں انہیں بہت زیادہ معاف کرنے والا اور احسان کرنے والا پائوں گا۔ پھر وہ آئے اور مسلمان ہو گئے۔ باقی رہا عبداللہ بن ابی سرح! تو وہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس چھپ گیا۔ جب رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو بیعت کے لیے بلایا تو حضرت عثمان اسے لے کر آئے حتیٰ کہ اسے بالکل آپ کے پاس کھڑا کر دیا اور عرض کی: اے اللہ کے رسول! عبداللہ سے بیعت لے لیں۔ آپ سر اٹھا کر اسے دیکھنے لگے۔ تین بار حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہی گزارش کی۔ آپ ہر دفعہ (عملاً) انکار فرما رہے تھے۔ آخر تیسری بار کے بعد آپ نے بیعت لے لی، پھر آپ اپنے صحابہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”کیا تم میں کوئی سمجھ دار شخص نہیں تھا کہ جب تم دیکھ رہے تھے کہ میں نے اس کی بیعت لینے سے ہاتھ روک رکھا ہے تو کوئی شخص اٹھتا اور اسے قتل کر دیتا۔“ انہوں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! ہمیں معلوم نہ تھا کہ آپ کے دل میں کیا ہے؟ آپ آنکھ سے ہلکا سا اشارہ فرما دیتے۔ آپ نے فرمایا: ”نبی کے لائق نہیں کہ اس کی آنکھ خائن ہو۔“