تشریح:
(1) مذکورہ روایت کی صحت اور ضعف میں اختلاف ہے، تاہم بغرض تفہیم حدیث چند ضروری وضاحتیں حاضر خدمت ہیں: ”اس کی آنکھیں چار ہو جائیں گی۔“ یعنی وہ بہت خوش ہوں گے کیونکہ خوشی انسان کی قوتوں میں اضافہ کرتی ہے۔ یہ ایک محاورہ ہے۔
(2) ”وہ دونوں رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور آپ سے ”نو واضح آیات“ کے بارے میں پوچھا۔“ ان آیات بینات سے کیا مراد ہے؟ آیات جمع ہے آیَۃٌ کی۔اس کے کئی ایک معانی ہیں، مثلاً: کسی چیز کی ظاہری علامت، نشان، خاص نشان، عبرت، سامانِ عبرت، ذات، جماعت، قرآن مقدس کا ایک جملہ یا چند جملے جن کے آخر میں وقف (گول دائرہ) ہوتا ہے۔ اسی طرح معجزہ بھی آیۃ کہلاتا ہے اور ہر وہ کلام جو لفظاً دوسرے کلام سے منفصل اور جدا ہوتا ہے اس پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ یہ محسوسات پر بھی بولا جاتا ہے اور معقولات پر بھی جس طرح کہ علامۃ الطریق اور الحکم الواضح وغیرہ۔ اس جگہ حدیث میں اس سے کیا مراد ہے، احکام یا معجزے؟ اگر تسع آیات بینات سے مراد احکام ہوں، پھر تو حدیث میں کوئی اشکال باقی نہیں رہتا کیونکہ ان یہودیوں کو سوال کا جواب دیتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”شرک نہ کرو، چوری نہ کرو، کسی کو ناحق قتل نہ کرو، جادو نہ کرو، زنا نہ کرو، سود نہ کھاؤ، کسی بے گناہ پر ظلم و زیادتی یا اسے قتل کرانے کے لیے حاکم و سلطان کے پاس نہ لے جاؤ وغیرہ، یعنی آپ نے ان کے سوال کے جواب میں احکام ذکر فرمائے ہیں۔ چونکہ سوال و جواب میں مطابقت ہے، لہٰذا کوئی اشکال باقی نہیں رہتا۔ لیکن یہاں آیات بینات سے مراد احکام نہیں بلکہ معجزات ہیں۔ ایک تو اس لیے کہ مسند احمد اور جامع ترمذی کی روایات میں اس کی تصریح موجود ہے۔ مسند احمد کی روایت میں ہے کہ ان دونوں (یہودیوں) نے آیت مبارکہ ﴿وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى تِسْعَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ﴾ (بني اسرائیل الاسراء ۱۷:۱۰۱) کے بارے میں سوال کیا۔ جامع ترمذی کی روایت میں بھی اس قسم کی تصریح ہے۔ دیکھئے: (الموسوعة الحدیثیة، مسند الإمام أحمد بن حنبل: ۳۰/۲۲، حدیث: ۱۸۰۹۶، و جامع الترمذی، تفسیر القرآن، بني اسرائيل، حدیث: ۳۱۴۴) بہرحال اس سے واضح ہوتا ہے کہ ان کا سوال احکام کی بابت نہیں تھا بلکہ ان نو معروف اور اہم معجزات کے متعلق تھا جو موسیٰ علیہ السلام کو عطا فرما کر فرعون اور اس کی فاسق و فاجر قوم کی طرف بھیجا گیا تھا اور ان معجزات سے مراد ہیں: عصا، ید بیضا وغیرہ۔ ایک مقام پر قرآن مجید میں اس کی صراحت کچھ یوں فرمائی گئی ہے۔ ارشاد باری ہے: ﴿وَأَلْقِ عَصَاكَ … تِسْعِ آيَاتٍ إِلَى فِرْعَوْنَ وَقَوْمِهِ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَاسِقِينَ﴾ (النمل ۲۷:۱۰-۱۲) اس مقام پر نو میں سے صرف دو معجزے مذکور ہیں، باقی مفصل طور پر سورۂ اعراف میں بیان فرمائے گئے ہیں۔ ارشاد باری ہے: ﴿وَلَقَدْ أَخَذْنَا آلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِينَ وَنَقْصٍ مِنَ الثَّمَرَاتِ … فَاسْتَكْبَرُوا وَكَانُوا قَوْمًا مُجْرِمِينَ﴾ (الأعراف: ۷:۱۳۰-۱۳۳) ویسے موسی ﷺ کو ان نو معجزات کے علاوہ اور بھی کئی معجزے دیے گئے تھے، مثلاً: پتھر پر مارنے سے پانی کے چشمے جاری ہونا، بادلوں کا سایہ کرنا اور من و سلویٰ نازل کرنا وغیرہ جو مصر سے نکلنے کے بعد بنی اسرائیل کو دیے گئے۔ اس تفصیل سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ سوال معجزات ہی کے بارے میں تھا، نہ کہ احکام کے بارے میں۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ موسیٰ ﷺ کو فرعون کی طرف ہی بھیجا گیا تھا جیسا کہ قرآن مجید میں اس کی واضح طور پر تصریح موجود ہے۔ اگر ان نو واضح آیات سے مراد احکام ہوں تو اس سے فرعون اور اس کی قوم پر کوئی حجت ہی ثابت نہیں ہوتی۔ اصل بات تو فرعون اور اس کی قوم سے موسیٰ علیہ السلام کی نبوت و رسالت تسلیم کرانا، اور انہیں ان پر ایمان لانے پر آمادہ کرنا تھا۔ اگر ان سے مراد احکام ہوں تو اس سے اصل مقصد حاصل نہیں ہوتا، یعنی موسیٰ ﷺ کی نبوت و رسالت کا اثبات اور منکرین کی تردید۔ اب رہا یہ اشکال کہ سوال تو تھا معجزات کی بابت جبکہ جواب میں احکام ارشاد فرما دیے گئے۔ اس کی کیا وجہ؟ علامہ سندھی رحمہ اللہ نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ یہودیوں کے سوال کا جواب دیتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے ان مشہور و معروف نو معجزات ہی کا ذکر فرمایا تھا، کسی وجہ سے راوی نے ان کا ذکر نہیں کیا، بلکہ اس کے بعد ان عام احکام کا ذکر کر دیا جو تمام اقوام و ملل کے لیے واجب العمل ہیں۔ تورات میں بھی یہ سب احکام مذکور ہیں۔ امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اس حدیث کے ایک راوی عبداللہ بن سلمہ کے حافظے میں خرابی ہے جس کی وجہ سے اس پر جواب خلط ملط ہو گیا ہے اور اس نے نو معجزات ان دس کلمات کو بنا دیا ہے جو تورات میں مذکور ہیں لیکن یہ فرعون پر حجت قائم کرنے اور موسیٰ ﷺ کی نبوت و صداقت کی دلیل نہیں بن سکتے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (تفسیر ابن کثیر، تفسیر سورة بني اسرائیل، تحت آیة: ۱۰۱، و ذخیرة العقبی، شرح سنن النسائی، المحاربة، حدیث: ۳ث۴۰، و التعلیقات السلفیة علی سنن النسائي، المحاربة، حدیث: ۴۰۸۳) بلاشبہ مذکورہ تفصیل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ”نو واضح آیات“ سے مراد: عصا، ید بیضا، قحط، پھلوں کی کمی، طوفان، جوئیں، ٹڈیاں، مینڈک اور خون ہیں۔ ویسے ان کے علاوہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اور معجزے بھی دیے گئے تھے مگر ان کا تعلق بنی اسرائیل سے ہے نہ کہ آلِ فرعون سے۔ یہ تفصیل تو تھی نو واضح آیات کی بابت۔ اب باقی رہ گئی دسویں چیز، یعنی جو صرف یہودیوں کے ساتھ خاص ہے، دوسرا کوئی بھی اس میں ان کا شریک نہیں، تو اس سے مراد، جیسا کہ قرآن و حدیث سے واضح ہوتا ہے، ہفتے کی تعظیم کرنا اور وہ تعظیم بھی صرف اسی حد تک معلوم ہوتی ہے کہ ہفتے کے دن مچھلی کا شکار نہ کریں اور بس۔ چونکہ باقی نو احکام تمام ملل و اقوام میں مشترک ہیں جبکہ یہ دسواں حکم صرف یہودیوں کے لیے تھا، اس لیے فرمایا گیا کہ ”اے یہودیو! یہ تمہارے ساتھ خاص ہے، دوسرا کوئی اس میں تمہارا شریک نہیں۔ و اللہ أعلم
(3) ”صاحب اقتدار کے پاس نہ لے جاؤ“ تاکہ اسے کسی جھوٹے مقدمے میں پھنسا کر ناحق سزا دلواؤ یا اسے قتل کرا دو، یا اس پر کسی قسم کی زیادتی اور ظلم کراؤ۔
(4) ”تجاوز نہ کرو“ یعنی اس دن مچھلی کا شکار نہ کرنے کے متعلق۔
(5) ”ہاتھ اورپاؤں چومے“ محبت اور پیار میں یا بطور احترام بوسہ دینا ایک فطری امر ہے۔ بچوں اور بزرگوں کو بوسے دیے جاتے ہیں، البتہ پاؤں کے بوسے میں سجدے سے مشابہت ہوتی ہے، لہٰذا اس سے اجتناب کیا جائے۔
(6) ”نبی ان کی نسل سے آئے“ اس بات سے ان کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ کہنا چاہتے تھے کہ داود علیہ السلام نے اس کی بابت دعا کی تھی کہ ان کی نسل ہی سے نبی آئیں، چونکہ آپ نبی ہیں، لہٰذا آپ کی یہ دعا قبول ہو گی، اس لیے ہم اس نبی کے آنے کے منتظر ہیں اور پھر ہم اسی کی اتباع کریں گے۔ لیکن یہودیوں کا یہ صریح جھوٹ ہے، اس لیے کہ یہ ناممکن ہے کہ سیّدنا داود علیہ السلام جیسے جلیل القدر نبی اس قسم کی کوئی دعا کریں جبکہ انہیں یہ بھی علم ہو کہ اللہ تعالیٰ نے ختم نبوت کا تاج حضرت محمد کریم ﷺ کے سر پر سجانا ہے۔ سیدنا داود علیہ السلام پر یہودیوں کا یہ محض افترا ہے کیونکہ وہ تو تورات و زبور میں یہ پڑھ چکے تھے کہ حضرت محمد ﷺ بطور خاتم النبیین مبعوث ہوں گے، نیز یہ بھی کہ آپ سابقہ ادیان و شرائع کو منسوخ کریں گے۔ اس سب کچھ کے ہوتے ہوئے داود علیہ السلام ایسی دعا کیونکر فرما سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ دعا اللہ تعالیٰ کی اس اطلاع کے بھی خلاف ہے جو کہ اس نے حضرت محمد ﷺ کی شان و مرتبے کے متعلق اپنے انبیاء و رسل کو دی ہے۔ و اللہ أعلم۔ مذکور بات یہودیوں میں غلط مشہور کر دی گئی تھی ورنہ یہ بات عقلاً صحیح ہے نہ نقلاً۔ حضرت داود ﷺ سے پہلے بھی انبیاء مختلف نسلوں سے آئے، بعد میں بھی۔ ممکن نہ تھا کہ ساری دنیا کے لیے انبیاء صرف ایک ہی نسل سے آئیں۔ یہ بات نبی کی بصیرت سے مخفی نہیں رہ سکتی تھی، لہٰذا وہ یہ دعا نہیں کر سکتے تھے۔
(7) ”قتل کر دیں گے“ رسول اللہ ﷺ پر ایمان نہ لانے کی دوسری وجہ ان یہودیوں نے یہ بیان کی کہ آپ پر ایمان لانے کی وجہ سے ہمیں جان کا خطرہ ہے، لہٰذا ہم ایمان نہیں لاتے۔ ان کا یہ بہانہ بھی بلکل بھونڈا اور غلط تھا کیونکہ اگر وہ ایمان لے آتے تو وہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ رہتے، اس لیے باقی یہودیوں کو یہ جرأت ہی نہ ہو سکتی کہ وہ انہیں اسلام قبول کرنے کی وجہ سے قتل کرتے؟ پھر یہ بات بھی ہے کہ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی تو مومن بن گئے تھے، کیا انہیں قتل کیا گیا تھا جو انہیں کیا جاتا؟ یہ بھی ان کا صریح جھوٹ تھا۔