تشریح:
(1) کھجور کے عوض کھجور کا کمی بیشی کے ساتھ سودا کرنا، حرام ہے خواہ کھجور کی ایک قسم کتنی ہی عمدہ و اعلیٰ اور دوسری کتنی ہی ردی ہو۔
(2) یہ حدیث صراحتاََ دلالت کرتی ہے کہ سودی کاروبار کرنا قطعاََ حرام ہے ایسا کیا ہوا سودا صحیح نہیں ہو گا۔
(3) بعض معاملات میں حرام کام کامرتکب اس وقت تک معذور سمجھائے گا جب تک اسے اس کام کی حرمت کا علم نہ ہو۔ یہ یاد رہے کہ عذر بالجہل مطلقاََ قابل قبول نہیں، تاہم بعض معاملات، جن کا شریعت مطہرہ اور عرفِ عام لحاظ رکھیں، ان میں ایسا عذر قابل قبول ہو گا۔
(4) اس حدیث مبارکہ سے خود ساختہ صوفیوں کے اس خشک زہد کا رد ہوتا ہے جو اچھی اشیاء کے استعمال سے گریز کرتے اور اپنے باطل زعم میں اسے تقویٰ سمجھتے ہیں، اپنے آپ کو مشقت میں مبتلا کرکے اسے نفس کشی کا نام دیتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بڑا عابد و زاہد بھلا کون ہو سکتا ہے؟ لیکن اس کے باوجود انھوں نے اپنے استعمال کے لیے، ردی کھجور کے عوض اچھی اور عمدہ کھجور پسند کی ہے اور اسے خریدا ہے۔
(5) امام اور دینی و مذہبی ذمہ دار شخص کو خصوصی طور پر دین کے معاملات کو اہمیت دینی چاہیے۔ جن لوگوں کو ان کا علم نہ ہو انھیں تعلیم دینی چاہیے اور انھیں نا جائز و حرام امور سے متنبہ کر کے جائز و مباح اور حلال امور کی طرف ان کی راہنمائی کونی چاہیے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابی کی رہنمائی فرماتے ہوئے اسے حرام کام سے ہٹا کر حلال کی طرف راستہ دکھایا۔
(6) یہ حدیث ربوا بالفضل کی حرمت کی صریح دلیل ہے۔
(7) شکوک و شبہات میں مبتلا شخص کی تلاش حق میں اس وقت تک مدد کرنی چاہیے جب تک کہ اس کے لیے حق واضح نہ ہو جائے۔
(8) جنیب اعلیٰ قسم کی کھجور تھی اور ”جمع“ ردی کھجور جس میں گٹھلی نہیں ہوتی تھی۔ یا جمع سے مراد ملی جلی کھجوریں ہیں۔ کوئی کسی قسم کی کوئی کسی قسم کی جیسا کہ صدقہ و عشر میں عام ہوتا ہے۔ چونکہ خیبر میں بھی ہر قسم کی کھجوروں سے حصہ وصول کیا گیا تھا، لہٰذا وہ ملی جلی تھیں۔