تشریح:
(1) اس حدیث مبارکہ سے شراب کی حرمت کے ساتھ ساتھ اس کی تجارت کی حرمت بھی واضح ہوتی ہے۔ مزید برآں یہ کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے سود کے ساتھ ملا کر بیان کیا جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: ﴿فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ﴾ (البقرة ۲: ۲۷۹) ”اگرتم لوگ سودی لین دین سے باز نہ آؤ گے تو پھر اللہ اور اس کے رسول طرف سے ایک (بڑی خوفناک) جنگ کا اعلان سن لو۔“
(2) سود کی حرمت کا شراب کی تجارت کی حرمت سے تعلق یہ ہے کہ یہ دونوں حرام کا ذریعہ بنتے ہیں۔ سود ظلم کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ اسی طرح شراب کی تجارت شراب پینے کا سبب بن سکتی ہے کیونکہ جب تک شراب کی تیاری، خرید و فروخت، لین دین مکمل طور پر ممنوع قرار نہیں دیا جاتا، اس وقت تک معاشرہ شراب پینے کی لعنت سے نہیں بچ سکتا۔ آپ نے سود کی حرمت سے یہ نتیجہ اخذ فرمایا کہ حرام کا ذریعہ بھی حرام ہوتا ہے، لہٰذا آپ نے شراب کی تجارت حرام فرما دی۔