تشریح:
(1) اس حدیث میں بھی جنین کی دیت غلام یا لونڈی بیان ہوئی ہے، تاہم اگر جنین زندہ پیٹ سے باہر آیا، پھر اسی لگائی گئی چوٹ کے اثر کی وجہ سے فوت ہوگیا تو اس صورت میں بڑے شخص والی مکمل دیت ادا کرنی پڑے گی۔ چوٹ جان بوجھ کر لگائی گئی ہو یا غلطی سے لگی ہو، دونوں صورتوں میں مسئلہ اسی طرح ہے جیسے بیان کیا گیا ہے۔ واللہ أعلم تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبی شرح سنن النسائي لأتبوبي: ۳۶/ ۲۱۹، ۲۲۰)
(2) اس حدیث مبارکہ کے الفاظ [إنَّ المرأة التي قضى عليها بالغُرَّةِ توُفِّيَت] سے بعض اہل علم کو یہ وہم ہوا ہے کہ اس سے مراد قاتلہ ہے، اس لیے انھوں نے ان الفاظ کے معنیٰ کیے ہیں: ”پھر جس عورت کے ذمے غرہ (دینے) کا فیصلہ کیا گیا تھا، وہ مر گئی۔“ یہ بات درست نہیں بلکہ حقیقت واقعہ کے خلاف ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ مرنے والی قاتلہ نہیں بلکہ وہ تھی جس کا جنین گرایا گیا تھا کیونکہ احادیث صحیحہ میں یہ صراحت موجود کہ مرنے والی قاتلہ نہیں بلکہ دوسری تھی جسے پتھر مار کر اس کا جنین گرا دیا گیا تھا اور اسے قتل کر دیا گیا تھا۔ حدیث کے الفاظ ہیں: [اقْتَتَلَتِ امْرَأَتانِ مِن هُذَيْلٍ، فَرَمَتْ إحْداهُما الأُخْرى بحَجَرٍ فَقَتَلَتْها وما في بَطْنِها] ”ہذیل قبیلے کی دو عورتیں لڑ پڑیں۔ ان میں سے ایک نے دوسری کو پتھر دے مارا اور اسے قتل کر دیا اور اس بچے کو بھی جو اس کے پیٹ میں تھا۔“ (صحیح البخاري، الدیات، باب جنین المراة… حدیث: ۶۹۱۰، وصحیح مسلم، القسامة والمحاربین، باب دیة الجنین…، حدیث: ۱۶۸۱ (۳۶) التي قضى عليها بالغُرَّةِ کا مفہوم ہے: التي قضى لها بالغُرَّةِ۔ مطلب یہ کہ علیھا بمعنیٰ لھا ہے۔ صحیح بخاری میں یہ الفاظ ہیں: [ثم ان المراۃ التی قضی لھا بالغرۃ توفیت] دیکھیے: (صحیح البخاري، الفرائض، باب میراث المرأة والزوج مع الولد وغیرہ، حدیث: ۶۷۴۰) بعض اہل علم کو حدیث مبارکہ کے آخری جملے [قضی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بان میراثھا لبنیھا وزوجھا، وان العقل علی عصبتھا] سے یہ وہم لگا ہے کہ مرنے والی قاتلہ ہی ہے۔ اسی کی وراثت کے حق دار اس کے بیٹے اور اس کا خاوند ہیں اور اس کی دیت اس کے عصبہ کے ذمہ ہے۔ صحیح مسلم کی حدیث سے اس شبہ اور وہم کا کلیتاً ازالہ ہو جاتا ہے۔ اس کے الفاظ اس قدر واضح اور صریح ہیں کہ وہم کا تصور ہی نہیں ہوتا۔ الفاظ یہ ہیں: [فجَعَل النَّبيُّ ﷺ دِيَةَ المقتولةِ على عَصَبةِ القاتلةِ، وغُرَّةً لِما في بَطْنِها] ”پھر رسول اللہ ﷺ نے مقتولہ کی دیت، قاتلہ کے عصبہ کے ذمے لگائی اور اس (مقتولہ) کے پیٹ کے بچے کی دیت ایک غرہ مقرر فرمائی۔“ (صحیح مسلم، القسامة، والمحاربین، باب دیة الجنین…، حدیث: ۱۶۸۲) مذکورہ بالا تصریحات سے تمام شبہات ختم ہو جاتے ہیں۔
(3) قتل خطا شبہ عمد میں دیت قاتل کے ذمے ہوتی ہے لیکن اس کی ادائیگی میں اس کے تمام نسبی رشتہ دار شریک ہوں گے۔ قانونی طور پر ان سب کے ذمے قسط وار رقم مقرر کی جائے گی اور وہ ادا کرنے کے پابند ہوں گے کیونکہ قتل خطا میں قاتل قصور وار نہیں ہوتا یا زیادہ قصور وار نہیں ہوتا۔ البتہ عمد کی صورت میں دیت قاتل کے ذمے ہوگی اور وہی ادائیگی کا ذمہ دار ہے کیونکہ وہ مکمل قصور وار ہوتا ہے، لہٰذا اسے ہی سزا بھگتنا ہوگی۔ واللہ أعلم