تشریح:
(1) ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ باجماعت نماز پڑھ رہے تھے تو یہ اطلاع پہنچی، گویا ایسا ہی واقعہ مسجد بنوحارثہ میں عصر کی نماز کے اندر پیش آیا، لیکن چونکہ مسجد قباء کی اپنی فضیلت و اہمیت ہے، اس لیے اس کا نام مسجد قبلتین نہیں پڑا تاکہ بحیثیت مسجد قباء ہونے کے اس کی جو اہمیت ہے وہ دب نہ جائے، بخلاف مسجد قبلتین کے کہ اس کا قبلتین ہونا ہی سب سے بڑی خصوصیت ہے۔
(2)تمام احادیث کو جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تحویل قبلہ کا حکم ظہر کی نماز کے وقت اترا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبے کی طرف اولین نماز، ظہر کی پڑھی۔ آپ کے ساتھ نماز پڑھنے والوں نے یہ اطلاع دوسری مساجد میں پہنچائی۔ مدینے والوں کو یہ اطلاع عصر کی نماز کے دوران میں ملی۔ انھوں نے نماز کی حالت ہی میں رخ بدل لیا۔ مسجد قباء میں شہر سے واپس جانے والوں نے صبح کی نماز کے وقت اطلاع پہنچائی۔
(3)امام صاحب کا استدلال یوں ہے کہ تحویل قبلہ کے حکم کے بعد تین نمازیں اہل قباء نے غیرقبلہ کی طرف پڑھیں، لیکن چونکہ اس بات کا پتہ ان نمازوں کی ادائیگی کے بعد چلا، لہٰذا دہرانے کی ضرورت نہ تھی۔ اب ابھی اگر نماز کی ادائیگی کے بعد پتہ چلے کہ نماز غلط جانب پڑھی گئی ہے تو دہرانے کی ضرورت نہیں، بشرطیکہ نماز سے پہلے قبلہ معلوم کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔