تشریح:
(1) حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک مسلمان شخص کو اخلاق رۡذیلہ سے اجتناب کرنا چاہیئے بالخصوص وہ برے اعمال جن کاحدیث میں ذکر ہوا ہے، چیزیں عملی نفاق کو مستلزم ہیں جو تقاضائے ایمان کے باکل منافی ہیں۔ قرآن وحدیث میں کچھ اور علامات نفاق بھی مذکور ہیں، مثلا: نماز میں سستی کرنا، دکھلاوے کی عبادت کرنا، دینی معاملات میں تذبذب کاشکار ہوتا نیز ذاتی مفادات ہی کو پیش نظر رکھنا وغیرہ ،تاہم اس حدیث مبارکہ میں بطور خاص جن چار چیزوں کا ذکر کیا گیاہے ان کاتعلق لوگوں کےعام باہمی معاملات سے ہے اور عموما انھی معاملات میں اتار چڑھاؤ باہمی اختلاف وفساد کا سبب بنتا ہے، اس لیے شریعت مطہرہ نے ان علامات کو نمایا ں طور پر ذکر کیا ہے۔ واللہ أعلم۔
(2) یہاں منافق سے اعتقادی منافق مراد نہیں کہ اسے دائرہ اسلام ہی سے خارج قرار دے دیا جائے کیونکہ اس (اعتقادی منافق) کا علم وحی کے بغیر نہیں ہوسکتا، بلکہ اس سے عملی منافق مراد ہے، یعنی جس کے کام منافقوں جیسے ہوں۔ اور یہ کام واقعی منافقوں کے ہیں ۔مطلب یہ کہ ایسا شخص عملی منافق ہوتاہے، نیز یہ اس وقت ہےجب یہ خصلتیں اس میں بختہ ہوں اور وہ ان کا عادی بن جائے یعنی جب بھی بات کرے، جھوٹ ہی بولے۔ جب بھی وعدہ کرے، خلاف ورزی ہی کرے ۔جب بھی عہد کرے، تو ڑدے وغیرہ کیونکہ کبھی کبھار جھوٹ یا وعدہ خلافی یا گالی گلوچ تو ہر ایک سے ہوسکتے ہیں۔ اتنے سے کسی کو منافق نہیں کہا جائے گا۔