تشریح:
اس حدیث میں حکومت کو عورت کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے کہ دودھ پلانے والی (عورت) بچے کو اچھی لگتی ہے۔ وہ اس سے محبت کرتا ہے لیکن جب وہی عورت دودھ چھڑا دے تو پھر وہ اس سے نفرت کرنا لگتا ہے۔ لاتیں مارتا ہے اور چیختا چلاتا ہے۔ یہی حالت حکومت اور حاکم کا ہے کہ جب تک وہ برسر اقتدار رہے، وہ حکومت کے نشے میں مست رہتا ہے اور اپنے آپ کو خوش قسمت ترین آدمی سمجھتا ہے۔ بلکہ خوب عیاشیاں کرتا لیکن جب حکومت چھن جاتی ہے تو آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ اقتدار رہ رہ کر یاد آتا ہے۔ پھر وہ آہ و بکا کرتا ہے اور جب اسے پانے دور اقتدار کا حسب دینا پڑتا ہے تو پھر وہ حکومت سے نفرت کرنے لگتا ہے اور اپنے آپ کو بدقسمت ترین انسان سمجھتا ہے۔ اور اگر کوئی صاحب اقتدار اپنی موت تک حکمران رہے تو پھر آخرت میں اس سے برا حال ہوتا ہے۔ إلَّا مَا رحم ربّي۔ حدیث میں بھی اس طرف اشارہ موجود ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے بے مثال عادل حکمران کا قول ہے: ”کاش میں اپنے دور اقتدار کے حساب سے بغیر کچھ لیے دیے (ثواب و عذاب) چھوڑ دیا جا ؤں۔“ یہ اسی حقیقت کا اظہار رہے ورنہ ان کی خلافت کی تعریف تو خود رسول اللہ ﷺ نے پیش گوئی کی صورت میں فرمائی ہے۔ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ وَ أَرْضَاهُ