تشریح:
(1) مکمل دعوت سے مراد اذان ہے کیونکہ اس میں تمام اصول دین موجود ہیں جن کی طرف اسلام دعوت دیتا ہے۔ چونکہ اس اذان کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے، اس لیے اسے اس مکمل دعوت کا رب کہا گیا۔
(2) الصَّلَاةِ الْقَائِمَةِ سے مراد وہ نماز ہے جو ابھی باجماعت قائم ہوگی۔
(3) الْوَسِيلَة کی تفسیر تو حدیث: ۶۷۹ میں گزر چکی ہے کہ وہ جنت میں ایک مقام ہے جو صرف ایک شخص کو ملے گا اور وہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہوں گے۔ الفضیلة سے مراد بھی بعض لوگوں کے نزدیک ایک مقام ہے، مگر کسی حدیث سے اس کا مفہوم کی تائید نہیں ہوتی، لہٰذا اس سے مراد فضیلت ہوگی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سب لوگوں، امتوں اور انبیاء علیہم السلام پر حاصل ہوگی، جنت سے باہر بھی اور جنت کے اندر بھی۔ اور مقام محمود حشر کے روز آپ کو نصیب ہوگا جب سب انبیاء کی امتیں آپ کے پاس چل کر آئیں گی اور آپ سے شفاعت کبریٰ کی درخواست کریں گی۔ آپ اپنے رب عزوجل کے انتہائی قریب پہنچ کر سجدے میں گر جائیں گے اور اپنے رب تعالیٰ کی بے مثال تعریفیں کریں گے، جب کہ تمام خلائق آپ کی تعریفیں کر رہی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو پیار محبت سے سجدے سے اٹھائے گا اور آپ کی شفاعت قبول فرمائے گا۔ اسے مقام محمود کہنے کی وجہ یہی ہے کہ آپ یہ مقام، حمد سے حاصل کریں گے۔ آپ اپنے رب کی حمد کریں گے اور سب لوگ آپ کی حمد کر رہے ہوں گے۔ اس مقام کا وعدہ قرآن مجید میں ہے: (عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا) (بني اسرائیل۷۹:۱۷) ”امید ہے آپ کا رب آپ کو عنقریب مقام محمود پر سرفراز فرمائے گا۔“
(3) سنن بیہقی کی روایت میں اس دعا کے آخر میں [إنك لا تخلفُ الميعادَ] ”یقیناً تو وعدے کے خلاف ورزی نہیں کرتا۔“ کے الفاظ بھی ہیں لیکن یہ شاذ اور ناقابل حجت ہیں، مزید یہ کہ بعض لوگ [والدرجةَ الرفيعةَ] کا اضافہ بھی کرتے ہیں مگر وہ حدیث کی کتب میں نہیں بلکہ بے اصل الفاظ ہیں، اس لیے مسنون الفاظ ہی کافی وافی ہیں۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: (إرواء الغلیل: ۲۶۱/۱، والقول المقبول في شرح و تعلیق صلاة الرسول، ص۳۰۲ اور اسی کتاب کا ابتدائیہ)