تشریح:
(1) امام صاحب اور ارباب اختیار صرف اس انتظار میں نہ رہیں کہ لوگ لڑنے کے بعد آئیں گے تو فیصلہ کروں گا بلکہ جھگڑے کی اطلاع ملنے پر فوراً کاروائی کریں اور صلح کی کوشش کریں۔
(2) بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خود ہی حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ اگر مجھے دیر ہو جائےتو ابوبکر سے کہنا کہ جماعت کرا دیں۔
(3) دوران نماز میں صفوں کو کاٹنے اور لوگوں کی گردنیں پھلانگنے کی ممانعت ہے کیونکہ ایسا کرنا نمازیوں کی تکلیف کا باعث ہے لیکن اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بوقت ضرورت ایسا کرنا جائز ہے مثلاً: وہ اہل علم و فضل جسے امام کے پیچھے کھڑا ہونا چاہیے تھا تاکہ امام بوقت ضرورت اسے اپنا نائب بنا سکے یا وہ شخص اگلی صف میں موجود خلا کو پر کرنا چاہتا ہو تو ایسی صورتیں امتناعی حکم میں شمار نہیں ہوں گی۔ یاد رہے کہ امام کے سامنے موجود سترہ مقتدیوں کے لیے کفایت کرتا ہے جس سے نمازیوں کے درمیان سے گزرنے کی گنجائش رہتی ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (فتح الباري: ۲۲۰/۲ تحت حدیث: ۶۸۴)
(4) تالی بجانے کا حکم تو عورتوں کے لیے ہے۔ یہ معنیٰ جمہور اہل علم کے قول کے مطابق ہیں یعنی اگر عورت کے لیے امام کو متنبہ کرنے کی ضرورت پیش آئے تو وہ ایک ہاتھ کی پشت پر دوسرے ہاتھ کی انگلیاں مارے کیونکہ ہتھیلی پر مارنا لہو و لعب کے لیے ہوتا ہے جو نماز کے لائق نہیں۔ نماز میں مذکورہ طریقہ اختیار کیا جائے گا۔ تالی بجانے کا مطلب یہی ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے اس جملے کے معنیٰ یوں کیے ہیں۔ تالی بجانا عورتوں کا کام ہے۔ یعنی یہ تو عورتوں کی فضول عادت ہے۔ گویا آپ تالی کی حرمت فرما رہے ہیں۔ نماز میں یہ مردوں کے لیے جائز ہے نہ عورتوں کے لیے۔ امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک عورتیں بھی ضرورت کے موقع پر سبحان اللہ ہی کہیں گی لیکن یہ مفہوم صحیح احادیث کے خلاف ہے جن میں صراحت ہے کہ مرد سبحان اللہ کہیں اور عورتیں تالی بجائیں۔ دیکھیے: (صحیح البخاري العمل في الصلاة حدیث: ۱۲۵۳ و صحیح مسلم الصلاۃ حدیث: ۴۲۲) اس کی تاویل بھی نہیں ہوسکتی۔
(5) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو نماز جاری رکھنے کا اشارہ کرنا بطور تکریم و تشریف تھا نہ کہ بطور حکم ورنہ ان کے لیے پیچھے ہٹنا جائز نہ ہوتا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ اٹھا کر اپنی بے حیثیتی کا اظہار کرنا اور حمد و ثنا کرنا اور پیچھے ہٹ آنا اس توجیہ کی تائید کرتا ہے۔ نماز کے بعد آپ کا استفسار کرنا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا جواب دینا لوگوں کو اسی توجیہ کی طرف متوجہ کرنے کے لیے تھا۔ کسر نفسی کا عظیم اظہار ہے کہ اپنے آپ کو معروف نام سے ذکر کرنے کی بجائے ابو قحافہ کا بیٹا کہا جو غیر معروف تھا۔ رضي اللہ عنه و أرضاه۔
(6) مستقل امام کی جگہ مقتدیوں میں سے کوئی نماز پڑھا رہا ہو تو جب امام آ جائے تو اس کا پیچھے ہٹنا اور مستقل امام کا آگے بڑھ کر امامت کرانا جائز ہے یا نہیں؟ امام بخاری رحمہ اللہ اور دیگر ائمہ اسے جائز قرار دیتے ہیں جبکہ مالکی اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص سمجھتے ہیں۔ لیکن اس موضوع سے متعلق تمام احادیث اور واقعات کو جمع کیا جائے تو راجح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ مستقل امام کا آگے بڑھ کر امامت کرانا اور پہلے امام کا پیچھے ہٹنا اس صورت میں جائز ہے جب مستقل امام نماز کے ابتدا میں آئے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں ہے لیکن اگر نماز کا کچھ حصہ ادا کیا جا چکا ہو تو اس صورت میں مستقل امام کو عارضی امام کی اقتدا ہی میں نماز ادا کر لینی چاہیے جیسا کہ غزوۂ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کی امامت میں نماز فجر ادا کی تھی کیونکہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ ایک رکعت ادا کرچکے تھے۔ اگر اسے مطلقاً جائز سمجھ لیا جائے یعنی امام نماز کا کچھ حصہ ادا کرچکا ہو پھر بھی آگے پیچھے ہونا جائز ہے تو یہ کسی صورت مناسب نہیں ہے کیونکہ یہ بعد میں پیچیدگیوں کا باعث بنے گا مثلاً: سلام وغیرہ کے مسئلہ میں لہٰذا راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ صرف ابتدا میں جائز ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (فتح الباري: ۲۲۰/۲)