تشریح:
(1) اس روایت کے بعض طرق میں صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب فرض نماز شروع فرماتے تو یہ دعا پڑھتے اور بعض میں رات کی نماز کا ذکر ہے، گویا یہ دعا فرض اور نفل دونوں میں پڑھی جاسکتی ہے، البتہ جماعت کی صورت میں مقتدیوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
(2) ”اللہ اکبر کہتے، پھر فرماتے۔“ یہ صراحت ہے کہ آپ یہ دعا تکبیرتحریمہ کے بعد پڑھتے، لہٰذا یہ کہنا درست نہیں کہ یہ دعا تکبیر تحریمہ سے قبل پڑھی جائے۔
(3) [أَنَا مِنْ الْمُسْلِمِينَ] میں مسلمان ہوں، حالانکہ آپ تو نبی تھے۔ دراصل یہ امت کو تعلیم دینے کے لیے ہے۔ متن میں لغوی ترجمہ کیا گیا ہے: ”میں فرماں برداروں میں سے ہوں۔“ یہ نبی اور امتی سب کے لیے برابر ہے۔ آگے آنے والی پوری دعا امت کے لیے ہے ورنہ آپ تو معصوم تھے اور اخلاق کاملہ و فاضلہ سے مزین تھے۔
(4) ”شر کی نسبت سے تیری طرف نہیں۔ “ البتہ خیر کے ساتھ ملا کر کہا جاسکتا ہے۔ خیروشر کا خالق، ورنہ اس میں بے ادبی کا پہلو نمایاں ہے۔ اس جملے کے اور بھی مفہوم بیان کیے گئے ہیں، مثلاً: شر کے ساتھ تیرا قرب حاصل نہیں کیاجاسکتا۔ یا شر تیری طرف نہیں چڑھتا بلکہ پاکیزہ کلمات تیری طرف چڑھتے ہیں۔ یا تیرے پیدا کرنے کے لحاظ سے کوئی چیز شر نہیں اگر کسی کو شر کہا جاتا ہے تو وہ کسی نہ کسی مخلوق کے لحاظ سے ہے۔ جو چیز ایک مخلوق کے لحاظ سے شر ہے، بسااوقات وہ دوسری مخلوق کے لحاظ سے خیر ہوجاتی ہے۔ یا جو چیز ایک وقت شر ہے، وہ دوسرے اوقات میں خیر بھی ہوسکتی ہے، لہٰذا حکمت کے لحاظ سے ہر چیز خیرہے۔